منوں مٹی تلے دب چکی ہیں
خواہشیں ساری
وہ خواب کتنے
کہیں صدائیں
ابھی بھی التجائیں کرتی ہیں
ان پلاسٹک کے کپڑوں میں
وینٹی لیٹر پہ پڑے
لمبی سانسیں لیتے ہوئے جسموں میں
کوئی زندگی کی کرن ابھی بھی جاگتی ہے
پکارتی ہے
اے میرے خدا!
تو، تو بر حق ہے
تو ہی بتا یہ کیسا وبال جاں ہے
جو انسانوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے
خدا یا!
گھر سے باہر خوف کے پہرے ہیں
گھر میں رہیں تو
کوئی خیال آوارہ بے چین کرتا ہے
دل آرزو پسند ہے تو جانتا ہے
ہمارا حال سب تو جانتا ہے
تو فقط ایک آنسو کو
مقبول اپنی بارگاہ میں فرما
خدایا! کرم فرما
خدایا! رحم فرما