نظم

مردہ خور : سعید اشعر

سعید اشعر
سعید اشعر
کیسی باتیں کرتے ہو
آؤ پھر سے ہم اپنی اپنی قربانی
شہر سے باہر
اک میدان میں کر کے چھوڑ آتے ہیں
قدرت کو منظور ہے جس کی قربانی
اس کی خاطر
اک کوندا لپکے گا
باقی کوے، کتے اور گدھ کھائیں گے
ورنہ سڑ گل جائیں گی
کیسی باتیں کرتے ہو
کیا تم میں اتنی ہمت ہے
اپنا چھوٹا سا بچہ اور اک بوڑھی عورت
کسی ویرانے میں
لے کر اللہ کا بابرکت نام
اکیلا چھوڑ آؤ
چاہے تم کو معلوم بھی ہو
بچہ ایڑھی رگڑے گا تو زم زم جاری ہو جائے گا
کیسی باتیں کرتے ہو
اللہ اپنے ہاتھ سے یہ لکھ کر دے دے
میرے بندے
بیٹے کی قربانی دے
میں اس کی جگہ
دھنبے کا خون بہاؤں گا
تم نے انکار ہی کرنا ہے
کیسی باتیں کرتے ہو
آبادی سے ہٹ کے تمہاری حویلی ہے
دیس کی خاطر
تم کیا دو گے جان
تم تو سوداگر ہو
تمھاری خوراک میں
مردہ بھائی کا گوشت بھی شامل ہوتا ہے

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی