بوسیدہ دروازے پہ
جمے قُفل
آنکھوں کی روشنی سے گئے
دیواریں راستہ ہو گئیں
کمرے کی ایک کھلی کھڑکی سے
چڑیاں جواں بچوں کو
پرانے وقتوں کی
پیار کی داستاں سُنا کر
اُڑنا سکھاتی ہیں
چمگادڑیں چھت سے لپٹی
بچوں کو لوریاں دیتی ہیں
تنگ گلی کسی کو گزرنے کا
راستہ نہیں دیتی
مُنتظر ہے کسی کی
کون سمجھائے اسے
وہاں سے کوئی
لوٹ کے نہیں آنے والا
فیض محمد صاحب