اب کی بار میں
اس خطے کو چھوڑ کر
کہیں ساحل کنارے جا بسوں گا
یا صحرا نورد ہوں جاؤں گا
کیونکہ آنکھیں میری دیکھ سکتی ہیں!
اور دیکھ رہی ہیں
کہ کس طرح سے ہم سَلاسل میں
جکڑے پڑے ہیں
راکھ کی ماند آندھیوں میں اُڑے ہیں
ہنستے بستے نگر ویران پڑے ہیں
اب میں
آسمان کی اِرتفاع کو چھوتی ہوئی
ساحل کنارے ٹھاٹے مارتی ہوئی
لہروں کی روانی اور فراوانی دیکھوں گا
سِیپیوں میں گھس کر پانیوں میں بہوں گا
سورج کی پانیوں کے بھیتر جھانکتی کرنوں
پر مشاہدے کی آنکھ ڈالتے ہوئے
آنکھوں میں منظر کو سما کر
کِواڑ مقفل کر لوں گا
یا پھر ریتلی زمین پر
پیروں پر کاوشوں کے چھالے سہہ کر
چہرے کو روپشت کر کے
ہر پڑاؤ پر سورج کی دھوکہ باز
کرنیں دیکھوں گا
اونچلے، قد آور ٹیلوں پر
پاؤں جمانا سیکھوں گا
یہ سب چیزیں مجھے مضبوط بنائیں گی
میں درد سہنا سیکھ جاؤں گا!
نواز انبالوی