محمد جاوید انور
کہا اس نے
کہ آؤ پیار کی نگری میں چلتے ہیں
گریزاں تھا مگر اس پر کشش
اخلاص کی بو باس میں بستے
سنہری خواہشوں سے
خوشنما اور خواب سے
رنگیں ، سرور آگیں
بلاوے کے حسیں چنگل میں
پھنس بیٹھا
بڑی مجبوریوں اور نارسائیوں کے
سرابوں میں نکل آیا
تو پایا
وُہ حسیں وعدہ وہ دعوت
اور وہ نگری
سحر تھا
اک فسوں تھا
واہمہ تھا بس