نجمہ منصور
رات کا آخری پہر ہے
خدا بھی پہلے آسمان پر
آن بیٹھا ہے
مناجات کے لیے اٹھے ہاتھ
شکرانے کی نظم لکھ رہے ہیں
اس معصوم لڑکی کے لئے
سیاہ ماتمی لباس میں
موت روز جس کا
پیچھا کرتی
مگر وہ ہر بار اسے چکما دے کر
اس سے آگے آگے چلتی
زندگی اور موت کے بیچ کے
پر اسرار گریہ کو سنتی
دعاؤں کے اس مقام پر
رکی کھڑی ہے
جہاں امید اور ناامیدی کی
طلسمی سرحدوں پر
کسی معجزے کی منتظر آنکھیں
زندگی کے کاسے سے
سانسوں کی ریزگاری چنتی
ہمہ وقت اپنے خدا سے ہمکلام ہیں
کیونکہ انہیں کامل یقین ہے کہ
موت کا کینسر زدہ چہرہ
دعاؤں کے سائبان سے جھانک کر
واپس لوٹ جائے گا
رات کے آخری پہر
شکرانے کی نظم لکھنے کے لئے
گم صم بیٹھی لڑکی
جانے کیا کیا سوچ رہی ہے!!