یوں ہے
پھر اس نے مسلسل
مجھ کو نظر انداز کیا
کاغذ پہ سیاہی گر جاتی ہے
کپڑوں پہ لگا دھبہ
کسی سلوٹ میں چھپ جاتا ہے
ہاتھ کی ریکھاؤں کا
کس نے حساب رکھا
سوکھی شاخ پہ بیٹھا پنچھی
کب اڑ جاتا ہے
ویران حویلی کے
کچھ دروازوں کو دیمک چاٹ رہی ہے
"مرشد
کوئی وظیفہ
کوئی دعا
تسبیح کے دانے
گنتی بھول چکے ہیں
میری آنکھوں میں رہنے والے
اک شخص کی روح
مجھ سے میرا بدن مانگ رہی ہے
میں سورج کو ہاتھ میں لے کر
کب تک چاند کا چہرہ دیکھوں گا
مرشد
میری سانسیں
غار میں سونے والوں کے پیچھے
پربت کا رستہ ڈھونڈ رہی ہیں
کوئی آیت
میرے ماتھے کی زینت کر دیں”
یوں ہے
پھر میں نے اس کو
اس کے ہونے کے آگے
اک پردہ جانا