لہجہ شہِ لولاک کے مانند کھرا تھا
پیاسا تھا سمندر کی طرح بول رہا تھا
پتے جو درختوں سے گرے تھے وہ ہرے تھے
ہر پھول کے آغوش میں خوشبو کا دیا تھا
کچھ ایسی حضوری کہ نہ دیکھی نہ سنی تھی
سر تن سے جدا ہو کے بھی سجدے میں پڑا تھا
آنکھوں میں ہے ٹھہرا ہوا وہ آخری لمحہ
جب تیز ہواؤں نے بھی دم سادھ لیا تھا
نیزے پہ کھلی کب ترے قامت کی قیامت
ہر مردِ خدا نورِ خدا دیکھ رہا تھا
خورشیدِ امامت ، مہِ آفاقِ دیانت
کس نور کا گھر خیمۂ ساداتِ رضا تھا
اِک نکتہ جگہ پائے نہ قرآن سے ہٹ کر
قرآن تھا کہ پیرہنِ آلِ عبا تھا
راست آئی نجیبؔ آیۂ تطہیر اُنھی پر
یہ فضل فقط آلِ محمدﷺ پہ ہوا تھا
نوید صادق
اگست 30, 2020سبحان اللہ