نظم

سری نگر کے لیے نظم : ڈاکٹر جواز جعفری

میں نے آخری بار اپنی اچھے دن
زخمی انگلیوں پہ شمار کیے
اور تلوار کی باڑ پر سو گیا
وقت نے
میرا چہرہ مسمار کر دیا
میں دنیا کے چوراہے میں بیٹھا
اپنا پھٹا لباس سی رہا ھوں!
سری نگر کے بازاروں میں
میں اپنی خالی جیبیں ٹٹولتا ھوں
میری شناخت
کہیں کھو گئی ھے
میرا سری نگر
شہر کے درجے سے گر گیا
میں ایک گورستان میں زندہ ھوں
ہر روز
میرے اعضاء کم ھو جاتے ھیں
میں نے اپنے پہلو میں کھڑی
ھوا کا ہاتھ
جھٹک دیا
اس میں میرے لیے زہر گھلا ھے
میری زمین
بارودی بچھونا ھے !
شہر کی گلیوں میں
بے ضمیر آوازوں کی منڈی لگی ھے
میرے اردگرد
چہرے گم ھو رھے ھیں
میں اپنا سر ہتھیلی پہ رکھے
بارودی سرنگوں پہ پاؤں رکھتا ھوا
آگے بڑھتا ھوں
مجھے کھوئے ھوؤں کی جستجو ھے
کوئی گولی
میری تلاش میں ھے
مگر
میں ہر محاذ پر صف آرائی کروں گا
اپنی تلوار کے مرصع دستے کے
لہو رنگ ھونے تک
میری لالہ زار زمین
فاتحین کے قدموں تلے بچھنے سے
انکاری ھے !
( متبادل دنیا کا خواب )

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی