میں رونق بھرے
سات بازاروں کا شہر ہوں
میری آنکھوں میں پُر پیچ گلیوں کے خم ہیں
جہاں دھوپ پوری نہیں پڑ رہی
سینکڑوں ہیں دکانیں
جہاں نرم چھجوں کے نیچے
چمکدار بارش کا پانی نہیں رُک رہا
پیچ کھاتی سیہ رنگ سڑکیں
جہاں اب کے بجری بچھانی نہیں
ریت چھلنی کے اوپر نہیں چھاننی
اور پانی کی بنیاد اوپر اٹھانی نہیں
باغ کے تازہ پھولوں سے
پانی میں بہتی ہوئی پتیوں سے
اٹھانا ہیں رستے،ابھی راستے میں ہے
پھولوں سے نازک زمانہ
یہاں پتوں والی
ہرے ٹائروں والی گاڑی کو آ کر ہے رُکنا
زمیں کو مقام مقرر سے اوپر ہے اٹھنا
فلک کو مقام مقرر سے نیچے ہے جھکنا
یونہی سالہا سال
رنگیں کناروں‘ ستاروں بھری کشتیوں کو ہے بہنا
اسی ایک دریا کے گیلے کناروں پہ اُگنے ہیں باغات
بننے ہیں اونچے مکانات
اٹھنے ہیں مینار
میں نے فلک بوس مینار کی طرح
پھولوں بھرے شہر میں سات بازاروں سے
سات رستوں سے،سیاحوں کو، راہبوں کو
نظر آنا ہے
شہر سے جانے والوں نے
جب لوٹ کر اپنے گھر آنا ہے
ایک میں نے نظر آنا ہے
سات بازاروں میں منقسم، متحدّ!!