جبار واصف
فصل ِ گل کی انگلی میں
درد کی انگوٹھی ہے
وقت کی کلائی میں
مسئلوں کے گجرے ہیں
ہر سحر کی گردن میں
آنسووں کی مالا ہے
اور شب کے ماتھے پر
رنج و غم کی بندیا ہے
خواہشوں کے چہرے پر
حسرتوں کا غازہ ہے
ہر سفر کے پیروں میں
مصلحت کی جھانجر ہے
راستوں کی آنکھوں میں
ظلمتوں کا کجرا ہے
منزلوں کی زلفوں میں
جا بجا سفیدی ہے
قصہ مختصر صاحب!
زندگی کی دلہن نے
گھر سنبھال رکھا ہے