زمانی تسلسل میں
مَیں کام کرتا نہیں ہوں
زمانے سے باہر کی رَو چاہیے میرے دل کو
زمانہ تو اِک جزر ہے
مَد تو باہر
کسی لازماں، لامکاں سے اُمڈتا ہے
قطاروں میں لگنے سے حاصل نہیں کچھ
کہ وہ لمحۂ مُنتظر تو
کسی اجنبی سمت سے آتے
دُم دار تارے کی صورت
۔۔۔ جو صدیوں میں آتا ہے ۔۔۔
آئے گا اور اِن قطاروں میں بھٹکے مداروں کو
مقراض کے طور سے
جانبِ عرض میں قطع کرتا نکل جائے گا
زمانے کے اِس بانجھ پَن کا مداوا
اُسی کا رہیں ہے
جدھر دیکھتے ہو
اُدھر کچھ نہیں ہے