راستے بنانے پڑتے ہیں
فطرت کی منہ زور قوتِ تخلیق جب موج میں آتی ہے
تو گھٹائیں بنجراورچٹیل میدانوں کا رخ کرتی ہیں
اور فضا میں آبشاروں جیسا منظر تشکیل پانے لگتا ہے
جل ورتارا شروع ہوتا ہے تو
زمین کا سینہ شق ہو جاتا ہے
نمو پرور زرخیزی کا ظہور ہوتا ہے
مٹی پر مسلط بانجھ پن کی آہنی گرفت کمزور پڑنے لگتی ہے
زیر زمیں پڑے بیج کے سخت اور کھردرے بدن میں دراڑیں نمو دار ہوتی ہیں
ان دراڑوں سے نم آلود ہوا بیج کے اندر اترتی ہے
اور اس کی کوکھ بھر دیتی ہے
جیسے ہی بیج سے ایک کونپل سر آتھاتی ہے
تو خوابِ غفلت میں پڑے سارے بیج ایک انگڑائی لے کر
ننھی منی خار دار جھاڑیوں ، چھوٹے بڑے درختوں
اور گھنے پیڑوں کا روپ اختیار کر لیتے ہیں
بے آب و گیاہ دھرتی سے جنگل نمودار ہوتا ہے
اوردھرتی کے ننگے بدن کو ڈھانپ دیتا ہے
راستے گم ہو جاتے ہیں
ہم نے نام نہاد تمدن کے نام پر جو شہر بسائے ہیں
وہ بھی تو اینٹ پتھر گارے اور فولادی جھاڑیوں کی صورت میں اگے ہوئے
مختلف نوعیت کے جنگل ہی تو ہیں
بے محابا بڑھتے ہوئے ان جنگلوں نے
زندگی سے راحتیں چھین لی ہیں
پیہم شور، ہنگاموں اور بے سمت تیز رفتاری نے
ایک مسلسل ٹکراؤ کی صورت اختیار کر لی ہے
بے اطمینانی کی راکھ نے چہروں میں زردیاں اور آنکھوں میں ویرانیاں بھر دی ہیں
دولت ،اقتدار اور منصب کے نشے میں چور
کتنے خوں خوار بھیڑیے ان جنگلوں کے وارث ہیں
مستقل خوف کے عالم میں گھری مخلوق
جائے پناہ کی تلاش میں ہے
مگر اندھے سفر کی کوئی منزل نہیں
جنگل سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں
یہ جنگل بڑی تیزی سے پھیل رہے ہیں
جنگل راستہ نہیں دیا کرتے
راستے بنانے پڑتے ہیں
اقتدار جاوید
دسمبر 16, 2020بہت خوب