نظم

دِن آغاز ہُوا : حامد یزدانی


دن آغاز ہُوا
اک آوارہ دن آغاز ہُوا
اک آوارہ پت جھڑ جیسا دن آغاز ہُوا
لان میں دبکے، میپل کے بوسیدہ پتے اپنی مٹھی کھولتے ہیں
جانے، کون زبان میں یہ کیا بولتے ہیں!
میں تو اتنا جانتا ہوں
عمر کی ڈھلتی دھوپ میں یادوں کی مٹّی بھی سونا لگتی ہے
کوئی بتائے
کون یہ سونا آنکھ میں بھر کر
پہروں آوارہ پھرتا ہے
سرمائی کہرے میں چُھپتی جھیلوں پر
بیتے کل کے اونچے نیچے ٹِیلوں پر
بس اک دن کو ساتھ لئے
سانس میں بجھتی رات لئے
کوئی بتائے
کیسے، کب
یہ ماضی کا جلتا بجھتا در باز ہُوا !؟
دن آغاز ہُوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی