مولا!
اب دکھ
میرے بس سے باہر ہے
دم گھٹتا ہے
انکھوں کا پانی
بے وقعت ہے
میرے فریادی لفظوں کو شاید
سیدھا رستہ بھول گیا ہے
کھڑکی میں تاریکی بیٹھی ہے
کوئی نیکی
کوئی صدقہ
جگنو بننے کے قابل نہیں ہے
اک جھوٹا سجدہ
میرے ماتھے سے چپکا ہے
اس کو روشن کر دے
مولا!
میری جانب چلنے والی ہواؤں میں
دشمن لمحوں کی سازش
سانسیں لیتی ہے
پیڑوں پر آگ لگی ہے
دھند، دھویں سے آلودہ ہے
ندیا کے پانی میں
تیزاب ملا ہے
مٹی کی خوشبو میں
لہو کی بو شامل ہے
میرے پھیلے ہاتھوں پر
بادل کا ٹکڑا رکھا ہے
اس کو بارش دے دے
مولا!
میری کمزوری کو
ظالم تیری لاچاری
سمجھ رہے ہیں
تیری لاٹھی کی خاموشی سے
وہ اپنے اندر
جراءت پاتے ہیں
تجھ پر ہنسنے کی
ان کو شہ ملتی ہے
انصاف کٹہرے میں
میری میت کا
سودا ہونے والا ہے
مولا!
مجھے بچا لے
تجھ پر ہنسنے والوں کی
میں چیخیں سننا چاہتا ہوں
سعید اشعر
گمنام
فروری 15, 2021واااااااااااہ ۔۔۔۔بہت خوب صورت نظم