نظم

دردِ زہ عرف سنامی : ڈاکٹرستیہ پال آنند

ذرا سا پلٹ کر سمندر نے اک آنکھ کھولی
کہا خود سے، اب کیا کروں میں، بتاو
مرے پیٹ میں آگ کا زلزلہ
جس کی بنیاد صدیاں ہوئیں ۔۔۔
کچھ دراڑوں میں رکھی گئی تھی
نکلنے کو اب کسمسانے لگا ہے!
سمندر نے اب دوسری آنکھ کو بھی
ذرا وا کیا ۔۔۔ اور پوچھا پلٹ کر
میں کیوں اتنی صدیوں سے اس زلزلے کی
اُبلتی ہوئی آگ اپنے شکستہ، دریدہ
بدن میں چھپائے ہوئے ہوں؟
بہت تنگ ہوں میں !
اسے ایک جھٹکے سے باہر نکالوں؟
چلو، دیکھتے ہیں
سمندر نے خود سے کہا پھر پلٹ کر
کئی زلزلے میں نے پیدا کیے ہیں
مجھے کوئی پروا نہ تھی اور نہ ہے اب
مرے نیچے پھیلی ہوئی کھائیوں میں
ہزاروں کی تعداد میں زلزلے ہیں
پہاڑوں کی کچھ چوٹیاں بھی ہیں مجھ میں
جو دم سادھے قرنوں سے سوئی پڑی ہیں
اگر ایک جھٹکے سے یہ جاگ اُٹھیں
اگر اپنے اونچے سروں کو اٹھا کر
مرے پانیوں کو ابلنے پہ مجبور کر دیں
تو کیا ہرج ہو گا؟
پلٹ کر سمندر نے اب دوسری آنکھ
پوری طرح کھول دی اور کہا زلزلے سے
مری کوکھ سے اب نکل میرے بچے
مرا درد ِ زہ اب بہت بڑھ گیا ہے!

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی