تو کبھی بدلے گا بھی
اس جسم سے باہر نکل کر؟
ایک پنجرے میں مقید
جسم کے سب
آٹھ سوراخواں کے کشکولوں میں
اپنی کم بقا محرومیوں کی دکھشنا
بھرتا ہوا
تو آج بھی یہ چاہتا ہے
سارے کشکولوں کو بھر لے
گیروا چولا پہن کر ، کان پھڑوائے
(کہ یہ آدیش تھا سب جوگیوں کو
آٹھ سوراخوں کی ساری تشنگی
مٹ جائے ، تو پھر
اک نئے تشنہ بدن میں
سابقون و اوّلون و التمش سے آگے بڑھ کر
دخل در امکاں کی صورت
مرتسم ہو
ہو چکا کافی
بہت کچھ ہو چکا
ان گنت جنموں کے
ایمائی تشخص در تشخص کی تجھے
اب کیا ضرورت ہے، بتا
کیا ضرورت ہے تجھے
آوا گون کے
چکروں کے پھیر میں پڑنے کی اب؟
کیا ضرورت ہے کسی
آبی کنوئیں کے تشنہ لوٹے کی طرح
قرنہا سے رہٹ پر گرداں قدم کوشی؟
مگر ہر بار پھر
(کنوئیں کے لوٹے کی طرح ہی)
واپسی
ارجاع ، نصفا نصف چکّر
اس سے کیا اچھا نہیں ہے
بھول جاؤ اپنی خود زائی
مٹا دو اپنے ’دانے‘ کو
کہ دانہ خاک میں جب بھی ملے گا
تم نئے گلزار کی صورت اپج کر
فاش ہو گے
اس خطا کی کیا ضرورت ہے تمہیں اب
اے بدن میرے؟