نجمہ منصور
گل شیر بٹ!
تم آواز میں لپٹی خاموشی کی بات کرتے ہو
کیا تمہیں معلوم ہے
خاموشی کبھی کبھی
ہمیں اند ر سے لیر لیر کر دیتی ہے
اور تنہائی ان کترنو ں کو چن چن کر
درد کی گھڑی میں باند ھتی رہتی ہے
ہم اپنے ہی بدن کے اندر
عمر قید کی سزا کاٹتے رہتے ہیں
جیسے بدھا نے کاٹی تھی
کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے
جیسے تم بدھا کی بچی ہوئی مٹی
سے پیدا کیے گئے ہو
پر اسراریت کی دبیز چادر اوڑھے ہوئے
تم عجیب باتیں کرتے ہو
تمہارا گوتمی فلسفہ
بدھی درخت کی شاخوں سے پھوٹتا ہے
جس میں درد
خاموشی کی اترن پہنے
اجلا اجلا سا لگتا ہے
با لکل تمہاری طرح
گل شیر !
تمہیں پتا ہے
خاموشی خدا کی زبان ہے
جو روحوں سے ہم کلام ہوتی ہے
اور تم اسی زبان کے کہا نی کا ر ہو
جو کبھی گلزار
کبھی جگجیت
تو کبھی مبارک شاہ کی
کتھا لکھنے کے لیے
خاموشی کی کوکھ سے
لفظ کشید کرتا ہے تو
‘کہانی سانس لیتی ہے’
گل شیر!
کہیں ایسا تو نہیں کہ
اس خاموش کہانی کا
آخری اساطیری کردار تم خود ہو
تم خود!
جو آواز میں لپٹی خاموشی
کی بات کرتا ہے!!