نظم

جیسے کُوزہ نہیں جانتا : رفیق سندیلوی


رفیق سندیلوی
جیسے کُوزے پہ جُھک کر
کبھی روشنی کی مُرصّع صراحی نے
دو گھونٹ امرت اُنڈیلا نہیں
جیسے کُوزہ نہیں جانتا!
جیسے کُوزہ نہیں جانتا
اِک جَھری
نوکِ سوزَن سی پتلی لکیر
اُس کے پیندے پہ ہے
کیسے محفوظ رکھّے گا پانی
جو اندھے کنووں سے
ہَوا کھانستی ٹُونٹیوں
بے نُمو گھاٹیوں سے
چٹانوں کی باریک درزوں
تڑختی زمیں کی دراڑوں سے
قطرہ بہ قطرہ اکٹّھا ہُوا
جیسے کُوزہ نہیں جانتا!
جیسے کُوزہ نہیں جانتا
آبِ زر
منبعِ نُور سے
وقفوں وقفوں میں
بُوندوں کی صورت
ٹپکتا ہے
تَر کرتا رہتا ہے
پیاسوں کے لب
پَر بُجھاتا نہیں ایک دَم تشنگی
ایک میقات ہوتی ہے
لبریز ہونے کا اِک وقت ہوتا ہے
اِک رات ہوتی ہے
اُس رات کے
اپنے اسرار ہوتے ہیں
انوار ہوتے ہیں
جو ہَر کسی پر برَستے نہیں
جیسے کُوزہ نہیں جانتا!

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی