یہ شجر جو شامِ خزاں میں ہیں
جو مکاں ہیں ان کے قریب کے
کسی عمر کی کوئی یاد ہیں
یہ نشان شہرِ حبیب کے
انھیں دیکھتا ہوں مَیں چپ کھڑا
جو گزر گئے انھیں سوچتا
یہ شجر جو شامِ خزاں میں ہیں
جو مکاں ہیں ان کے قریب کے
انہی بام و در میں مقیم تھے
وہ مکین شہرِ قدیم کے