نظم

تھکا ہوا بدن : فیض محمد صاحب

حدتِ آفتاب سے
جل رہے ہیں پتھر
درودیوار کا سینہ
لو سے آتش زدہ ہے
پیاسی چڑیاں بیری کے درخت سے
زمیں پہ اتر کر پانی سے بھری
بالٹی میں غوطہ زن ہوتی پھرتی ہیں
کھلی کھڑکی سے آتی ہلکی ہلکی ہوا
بدن پہ بکھرے پسینے کو خثک کرتی
تھک گٸی ہے
سخت دوپہر کے عالم میں
کچھ ڈاٸنیں محوِ صدا ہیں
کھلونے لے لو
بچوں کو کیسے سمجھایا جاۓ؟
یہ اک فریب ہے ؟
بھلا ڈاٸنیں کس کی ہوٸیں ؟؟؟
تیز ہوا چلے تو ہوا
کٸی دروازوں پہ
کھڑکیوں پہ دستک دیتی ہے
راہیں دیکھنے والے
کٸی گھنٹوں بچھڑے ہوۓ
ڈھونڈنے میں ضائع کر دیتے ہیں
کمرے میں ٹک ٹک کرتی گھڑی
رکتی ہی نہیں
اس سخت گرمی میں جب
شہر میں لو سے بچ کے
بسترپر شرابور
سستا رہا ہے تھکا ہوا بدن

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی