نظم

بے بس ہیں یا مُجیر! ہر اک ابتلا کو ٹال : نویدملک

اے ربِ کائنات! ہے گردش رُکی ہوئی
سب نے بدن پہ اوڑھ لی دنیا بجھی ہوئی
۔
اب ہر چراغ لو کو ترستا ہے صبح و شام
اب ہر نگہ میں نور کا ہوتا ہے انہدام
۔
دنیا کا گوشہ گوشہ پریشاں دکھائی دے
ہر ذہن ابتلاؤں میں ویراں دکھائی دے
۔
نیندوں میں کوئی خواب بھی آتا نہیں ہمیں
آئینہ کوئی عکس ، دکھاتا نہیں ہمیں
۔
پہنچے نہ عرش تک کسی درویش کی دعا
یہ اشک کس کے سامنے رکھیں اب التجا
۔
دریا نے جتنے موتی تھے ہم سے چھپا لیے
اور آسماں نے سارے ستارے بجھا دیے
۔
نفرت سے ہر شجر ہمیں دیکھتا ہے اب
موسم ہماری سمت گھٹن بھیجتا ہے اب
۔
گلشن سے ہر طرف ہی گریزاں ہیں تتلیاں
مٹنے لگیں ہیں چار سو خوشبو کی بستیاں
۔
بے وقت کی اذان سے گونجے ہر ایک گھر
پھر بھی فضا ؤں پر نہیں ہوتا کوئی اثر
۔
پہلے سے بڑھ کے دھوپ یہ سورج بھی ڈھائے آج
ناراض ہو گئے ہیں درختوں کے سائے آج
۔
آنکھیں ہر ایک صبح پہ ماتم کنُا ں ہیں آج
بادِ صبا کو بھیجنے والے کہاں ہیں آج
۔
تسخیرِ کائنات کے دعوے کیے بہت
مرضی سے اِس زمین میں سارے جیے بہت
۔
سب تجرِبے دوام کے بے کار ہو گئے
کتبے ہمارے نام کے تیار ہو گئے
۔
اے ربِ کائنات! مدینے کا واسطہ
تجھ کو ترے نبیؐ کے پسینے کا واسطہ
۔
ہم کو معاف کر، نہ خطائیں ہماری دیکھ
ہونٹوں پہ اب لرزتی دعائیں ہماری دیکھ
۔
اے ربِ ذوالجلال!زمانہ اداس ہے
اے خالقِ زماں!تری رحمت کی پیاس ہے
۔
بے بس ہیں یا خبیر! کوئی راستہ اُجال
بے بس ہیں یا مُجیر! ہر اک ابتلا کو ٹال
۔

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی