اے حَسَن کوزہ گر کےReductio ad absurdum طریق کار سے ن۔ م راشد کی چار نظموں کے سلسلے کو سمجھنے کی ایک شعری کوشش۔(راشد کی نیک روح سے معذرت کے ساتھ)
اے’’ حَسن کوزہ گر‘‘
کون ہے تُو؟ بتا
اور’’ تُو ‘‘ میں بھی شامل ہے، ۔۔ ’’ہاں‘‘، اور ’’نہیں‘‘
تو جو خود کوزہ گر بھی ہے، کوزہ بھی ہے
اورشہر حلب کے گڑھوں سے نکالے ہوئے
آب وگل کا ہی گوندھا ہوا ایک تودہ بھی ہے
جو کبھی چاک پر تو چڑھایا گیا تھا، مگر
خشک کیچڑ سا اب سوکھتے سوکھتے
اپنی صورت گری کی توقع بھی از یاد رفتہ کیے
چاہ نیساں کی گہرائی میں
خواب آلودہ ہے
اے حسن ؔکوزہ گر
کیا جہاں زاد بھی (جو کہ ’’نادان‘‘ تھی )
باکرہ تھی جسے تو نے نو سال پہلے
’’گل و رنگ و روغن کی مخلوق‘‘ سمجھا؟
چڑھایا نہیں چاک پر (جس کمی کا تجھے آج بھی ہے قلق)
تیری لگتی تھی کچھ؟
کیا جہاں زاد عطّار یوسف کا مال تجارت تھی، اسباب تھی؟
یا کہ بیٹی تھی ، بیوی تھی؟یا داشتہ۔۔۔
یا طوائف کی اولاد تھی ، جو ابھی
سیکھ پائی نہ تھی سودا بازی کا فن؟
پیش کرتی تھی ہر آتے جاتے کو اپنی ہنسی
نفع و سودا بازی کا فن سیکھتی تھی ابھی
آج نو سال کے بعد وہ نا شگفتہ کلی
پھول ہے، کیف و مستی میں ڈوبا ہوا
آج نو سال کے بعد وہ باکرہ
انشراحی بشاشت کے اطوار سب سیکھ کر
مال و اسباب ،سودا گری کا ہنرجانتی ہے کسی بیسوا کی طرح
اے َحسنؔ،علم ہے تجھ کوکیا؟
ایک عطّار یوسف کی دکّاں نہیں
اغلباً ہر گلی اس کے قدموں کی آہٹ سے واقف تھی، جو
خود ’’جہاں زاد‘‘ تھی یا کہ ’’زادی‘‘ تھی ۔۔۔۔
کس اجنبی کی؟ اسے خود بھی کیا علم ہے
پوچھتے توذرا
سب پڑوسی تمہیں یک زباں یہ بتاتے،’’ جہاں زاد‘‘ اور
’’دخت زر‘‘ ایک ہی نام ہوتا ہے کسبی کی اولاد کا
اب مری بات سُن
میں کہ اک جسم میں تین روحیں لیے لکھ رہا ہوں یہ قصّہ جہاں زاد کا!
میں جہاں زاد بھی ہوں، َحسن کوزہ گر بھی مرا نام ہے
اور قصہ بھی میرا قلم لکھتا جاتا ہے جیسے کوئی
عالم غیب سے اس کے نوک قلم پر ہے بیٹھا ہوا
اے حسنؔ یہ بتا
تو نے پہلی کنواری بلوغت کے سالوں سے بھی پیش تر
میرے ’’ نوخاستہ ‘‘ کورے، کچّے، کنوارے بدن کو
’’ خزاں اور کہولت ‘‘سے کیوں آشنا کر دیا؟
جسم میرا تو شیشہ نہیں تھا جو پھونکوں سے بھرتی ہوا
کے سہارے کسی کوزہ گر کے تخیل کے شیشے کے کوزے میں تبدیل ہو کر
جہاںؔ زاد بنتا
اے حسنؔ کوزہ گر
شہر کوزہ گروں کا، حلب کی سرائے، سفر کی امیں
جس میں سب کوزہ گر،شیشہ گر شب بسر ہیں تمہاری طرح
یہ بھٹکتے ہوئے کاروانوں کی مٹی میں ڈوبی ہوئی
اک سرائے کہ جس میں نہانے کا اک حوض ہے تو سہی
پر نہانے کا یہ’’حوض‘‘اک ’’بسترِ وصل ‘‘ ہے
اور بستر سرائے کے اس بند کمرے میں ہے
جس میں ہم ’’ دائرے میں بندھے حلقہ زن‘‘
رات بھر
(یعنی اک رات بھر، صرف اک رات بھر)
گرم، مرطوب، ’’آبی ‘‘ ، ’’عرق ریز جسموں‘‘ میں داخل رہے
اور پھر’’ہم کنار و نفس‘‘، تیرتے تیرتے جیسے گُم ہو گئے
ہاں، حلب کی سرائے کے اس حوض میں
اپنے نو عمر ، کچے ، کنوارے بدن کو ڈبوتے ہوئے
’’خشک و تر مرحلوں ‘‘سے تجرد کی چادر بھگوتے ہوئے
خوف یہ تھا مجھے اس تر و تازہ غوطہ زنی میں
کہ نکلوں گا باہر تو اپنی یہ مریل سی ’’انگشت جاں‘‘
اپنی مٹھی میں پکڑے ہوئے جائوں گا میں کہاں؟
اے حَسنؔ کوزہ گر
بات کر مجھ سے، یعنی خود اپنے ہی ہمزاد سے
اور ڈر مت حقیقت سے اپنے بدن کی
کہ ڈر ہی ترے جسم و جاں کوہے جکڑے ہوئے
’’تشنگی جاں ‘‘کی، یعنی خود اپنی ہی مٹھی میں پکڑی ہوئی
ادھ مری خشک جاں
العطش العطش ہی پکارے گی اب آخری سانس تک
کیوں کہ تو جسم اپنا تو اس ’حوض بستر‘ میں ہی چھوڑ آیا تھا
جس میں جہاںؔ زاد کے جسم کی
گرم ، مرطوب دلداریوں کی تمازت
ابھی تک تڑپتی ہے لیٹی ہوئی
اور جنّت کے موذی سی بل کھاتی چادر کے بد رنگ دھبوں میں
لپٹی ہوئی
ایک شب ہی حسنؔ صرف کافی تھی تیرے
ہنر کی نمائش کی یا امتحاں کی، مگر
تیری پسپائی تیرا مقدر بنی
اور کرتا بھی کیا؟
سب بنے، ادھ بنے
’’سارے مینا و جام و سبو اور فانوس و گلدان‘‘ تُو
بس وہیں چاک پر ’’اَن جنی ‘‘ اپنی مخلوق کو ترک کر کے
حلب چھوڑ کر
سوئے بغداد کیوں گامزن ہو گیا؟
پیچھے مُڑکر اگر دیکھتا توُ حسنؔ
تجھ کو احساس ہوتا کہ یہ آل تو کوکھ میں ہے تری
تیرے کوزے، سبو، جام و ساغرسبھی
’’ ادھ جنے‘‘ تھے ابھی
اور تو اس’’ ولادت‘‘ کے فرض کفالت سے آزادبھی کیا ہوا
جیسے ہر فرض سے دست کش ہو گیا
ہاں، ترا اس سفر پر نکلنا ضروری تھا
بغداد تھی جس کی منزل ، (سکونت فقط نو برس کے لیے)
(ہندسہ ’نو‘ کا گنتی میں اک رکن ہے، اک مفرد عدد)
اے حَسن ؔکوزہ گر
تو بھی ’’الجھن‘‘ ہے ان عورتوں کی طرح
جن کو سلجھا کے کہنا کہ ہم نے انہیں پا لیا
واہمہ ہے فقط
کیوں کہ میرا بدن (جو کہ تیرا بھی تھا اور کوزوں کا بھی)
تو وہیں حوض میں ڈوب کررہ گیا تھا اسی رات
جب ہم بچھڑنے سے پہلے ملے اور گم ہو گئے
تجھ کو اتنا توشاید پتہ ہے کہ شب جوترے ذہن میں
ڈائنوں سی کھڑی (ایک عشرے سے اک سال کم)
تجھ کو کیوں، اے حسنؔ، پورے نو سال دھوکے میں رکھ کر
بلاتی رہی ہے حلب کی طرف!
وہ تو اب ایک’’لب خند‘‘ عورت ہے، لڑکی نہیں
تم نے تو ،اے حسن (اپنے نا تجربہ کار ، کم فہم ادراک میں)
جس کو’’نادان‘‘ سمجھا تھاتب
اب وہ دریا کا ساحل ہے بھیگا ہوا
وہ کنارہ جسے بوسہ دینے کو آ کر
پلٹتی ہوئی ساری موجیں ہمیشہ وہیں لوٹتی ہیں
جہاں اک برس ، دو برس، نو برس قبل ٹھہریں تھیں بس ایک پل
عین ممکن ہے تم نے یہ سوچابھی ہو
(’’تم‘‘ بھی تو اے حسنؔ، ’’میں‘‘ کا ہی روپ ہو)
اب ذرا ’’میں‘‘ کو بھی بولنے دو، حسنؔ
ہر طرف نا صبوری کے کانٹے اُگے تھے مرے حلق میں
میں یہ کہہ بھی نہ پایا تھا تجھ کو ’’جہاں کی جنی‘‘
ہاں، یہی نام اب زیب دیتا ہے سب کسبیوں کے لیے
بھولتا ہوں کہ شاید پکارا بھی ہو
میں نے پہلے کبھی تجھ کو اس نام سے
میرے کوزے جو نو سال پہلے تلک
تھے ہر اک ’’شہر و قریہ‘‘ ،ہر اک ’’کاخ و کو‘‘ کا تکبر یہاں
آج آواز دے کر بلاتے ہیں، ’’آ، اے حسنؔ
اور ہم بد نما پیکروں کو کوئی شکل دے!‘‘
اور میں، اے ’’جہاں کی جنی‘‘ ، لوٹ آیا تو ہوں
صرف تیری ’’تمنا کی وسعت‘‘ کو پھر ماپنا چاہتا ہوں
پھر اک بار ’’آنکھوں کی تابندہ شوخی‘‘ کے پیغام کو
جاننا چاہتا ہوں ۔۔ اگر
میری خفت، خجالت کا رد عمل
تیرا فدیہ ہے، تو میں یقینا ً رکوں گا یہاں
تا کہ پھر ’’رنگ و روغن سے ایسے شرارے نکالوں‘
جنھیں دیکھ کر ’’تیری آنکھوں کی تابندہ شوخی‘‘
مرے واسطے (ہاں، فقط میرے ہی واسطے)
چاندنی سی چمکتی رہے عمر بھر
اور، تو اے حسنؔ، یہ سمجھ (بولتا ہے ترا قصہ گو)
اپنی تنہائی میں
جھونپڑے کی تعفن سے بوجھل فضا کی
عفونت، جسے تم’’ بغل گندھ‘‘ کا عطر سمجھے ہوئے ہو
فقط ایک حیلہ ہے
یادوں کے جوہڑ میں
ڈبکی لگا نے کی خو ہے حسنؔ!
عشق بالکل نہیں
عشق بالکل نہیں
اے حسنؔ کوزہ گر!
یہ مثلث ہے کیا؟
ایک تم
ایک وہ جو جہاںؔ زاد ہے
اور وہ تیسرا؟
کون ہے وہ لبیبؔ، اس کا عاشق (کہ گاہک؟)
ہوس کار جو اس کے ’’ لب نوچ کر‘‘
زلف کو اپنی انگشت سے باندھ کر
اس کے نازک بدن سے فقط ایک شب کھیل کر چل دیا
اور وہ نائکہ
جس کی ریشم سی ، مخمل سی،صیقل شدہ جلد پر
اس کے ہاتھوں کی ، ہونٹوں کی ایذا دہی کے نشاں
اب بھی باقی ہیں، وہ یہ کہانی تمہیں
یوں سناتی رہی
مسکراتی رہی
جیسے شہوانیت بے حیائی نہ ہو
بلکہ لذت، حلاوت سے بھرپور
خوش ذائقہ ہو کوئی دعوت ما حضر
اور تم، اے حسنؔ
صرف اس ’’عشق‘‘ کی بات کرتے رہے
جو فقط ایک ہی بارصدق و وفا سے کسی کوزہ گر کے
تصنع سے عاری ، کھرے دل میں ڈھلتا ہے تو
چاک پر اس کے جام وسبو، ساغر و طشت میں
ایک ہی گلبدن کی نزاکت ،لطافت،نفاست کے ہی رنگ کھلتے ہیں
تخلیق کی ساحری سے
آ، حسن کوزہ گر
آ، کہیں پھر حکایت اسی رات کی
پی رہے تھے مئے ارغواں شام سے
اور میرا نشہ اس قدر بڑھ گیا
ریزہ ریزہ ہوا جام گر کر مرے کانپتے ہاتھ سے
کچھ اچنبھا نہ تھا یہ ترے واسطے
پر سکوں سی کھڑی دیکھتی ہی رہی
کیونکہ عادی تھی تُو
(ایسے بیکار سے حادثے محفلوں کی بلا نوشیوں کا ہی معمول ہیں)
گھر کے شیشوں کی درزیں سناتی رہیں
گنگ آواز میں
داستانیں کئی حادثوں کی یہاں
رنگ رلیوں کے قصے، خرابات کے تذکرے
قصہ گو کی زباں کو کوئی کیا کہے
(اور اس کویہ حق ہے کہ کچھ بھی کہے)
مالزادی‘‘ کہے یا ’’جہاں زاد‘‘ کو ہی مونث کرے
قصّہ گو رال ٹپکاتی اپنی زباں سے بہت کچھ سنانے کو تیار ہے
داستانوں کی سچائی کے اس مورخ کا اعلان ہے
میں، کہ اک قصّہ گو
ایک ثالث بھی ہوں اور منصف بھی ہوں
فیصلہ میری نوک قلم پر سیاہی کے قطرے سا ٹھہرا ہوا
منتظر ہے کہ کب اس کو لکھ کر سناؤں حسنؔ کو، جہاںؔ زاد کو
یا کسی تیسرے کو جو سچائی کی کھوج میں غرق ہو
اے حسن کوزہ گر
نو برس بعد بغداد سے لوٹ کر
گر تجھے دل کے عدسے میں اپنی ہی صورت
نظر آتی ہو
اور دہشت زدہ خود سے، تنہائی میں
لکھ رہے ہو اگر آنسوؤں سے وہ خط
جس میں اشکوں کے قطروں کے الفاظ یوں جُڑ گئے ہیں
کہ گریہ کناں چشم بس ایک صورت کو ہی دیکھتی ہے
تو تقصیر کس کی ہے، مجرم کا کیا نام ہے؟
آؤ، راشدؔ سے پوچھیں، حقیقت ہے کیا
ؔ’’عشق ہو، کام ہو، وقت ہو، رنگ ہو‘‘ ۔ہے تو مجرم کوئی
اب خطا کار کس کو کہیں اے حسن؟
معصیت کار ، مجھ کو یہ کہنا ہے، تم خود نہیں ہو حسنؔ
بد چلن تم نہیں ،اے حسن کوزہ گر
ہاں، تجھے ایک عورت کے’’ عشق ہوس ناک‘‘ نے
صرف اک رات کی لغزش بے ریا کے لیے
باندھ کر رکھ دیا ہے سدا کے لیے
اور عورت بھی کیا؟
بدچلن، فاحشہ، کنچنی، رال ٹپکاتی چھنّال، اک بیسوا
دیکھ گالی نہ بک ،اے مورخ، یہ قصہ سناتے ہوئے
زیب دیتی نہیںتجھ کو ایسی زباں
خیر، چھوڑونصیحت کی یہ گفتگو
ٰآئو، لوٹیں حلب کی طرف
اس سرائے کودیکھیں جہاں حوض تھا
بند کمرے تھے اور ان میںآرام کے واسطے
ایسے بستر لگے تھے کہ ان پر بچھی چادریں
پسینے کی بو سے شرابور تھیں
ٰآئو ڈھونڈیں، کہاں تھا یہ شہر حلب؟
اور حسنؔ نام کا کوزہ گر تھا کوئی
اور جہاںؔزاد تھی کیف و رنگ و دلآرائی کی مورتی
جس کی رعنائی کی سحر کاری کا نقش ہنر
اس کے کو زوں سے ایسے چھلکتا تھا جیسے مئے ارغواں
اے مورخ، بتا کب کی ہے داستاں
آج سے سینکڑوں یا ہزاروں برس پیشتر کی کہانی کہیں
اپنے کانوں سنیں
آؤ ڈھونڈیں انہیں
سالہا سال کی چکنی مٹی کے نیچے جودب تو گئے
’’پا شکستہ‘‘ بھی تھے ’’سر بریدہ‘‘ بھی تھے
لوک قصّوں میں لیکن وہ ’’با دست و سر‘‘
قصّہ گویوں کے مرغوب کردار ہیں
آؤ دیکھیں کہیں خاکنائے برآورد میں ایک تھل
جس میں ٹیلے بھی ہوںاور مٹّی کے انبار بھی
اور کوزہ گروں کی بنائی ہوئی
بھٹّیوں کے کچھ آثارشاید نظر آ رہے ہوں کہیں
’’یہ تاریخ ہے ازدحام رواں‘‘
در گزراس کو کرنا ہمیں زیب دیتا نہیں
’’یہ دبے ہیں‘‘ اگر، تو انہیں کھود کر
’’رہزن وقت‘‘ سے ہے بچانا ہمیں
کوئی کوزہ، کوئی جام ہوسالم و معتبہ
تو اسے کاوش واعتنا سے نکالیںکہ شاید
کسی’’رنگ کی کوئی جھنکار‘‘ ، ’’خوابوں کی خوشبو‘‘
’’لب کاسۂ جاں‘‘ میں خوابیدہ ہو
عین ممکن ہے یہ چاک، بھٹّی، طباخ اور تسلہ
یہ بوتل، یہ لوٹا، یہ ساغر، سبو
آبگینہ ، صراحی، یہ بط، سب اسی ہاتھ کے ہی کرشمے تھے تب
جس کے فن کے لیے بس جہاں زاد کا حسن موجود تھا
اس لیے کہنہ تاریخ کی جستجو میں لگے دوستو
غور و پرداخت سے کام لو
اورسوچو کہ ان ٹھیکروں میںنہاں ہے وہ فن
جس میں مخفی ہے قصّہ حسنؔ اور جہاں زادکاؔ
اور میں کیا کہوں
میں تو شاعر ہوں ، اک قصّہ خواں ہوں جسے
’’تتلیوں کے پروں ‘‘ اور جہاں زاد کے اس ’’ دھنک رنگ‘‘ چہرے
کے سب خال و خد کا(بغیر اس کو دیکھے ہوئے ہی) پتہ ہے
کوزہ گرؔ نے’’جو کوزوں کے چہرے اتارے‘‘
انہیں بھی یہی قصّہ خواں جانتا ہے
کہ خود بھی وہ شاید اسی قافلے کا جہاں گرد ہے
فن تو وہ آنکھ ہے جو کھلی ہے زماں کے تواتر میں اے راشد کوزہ گر
تو’’ ہمہ عشق ہے، تو ہمہ کوزہ گر، تو ہمہ تن خبر‘‘
لیکن اک بات کہنے کو جی چاہتا ہے کہ میں
خود تمہاری طرح ہوں حسن کوزہ گر
آب و گل بھی نہیں، رنگ و روغن نہیں
کوئی بھٹّی نہیں
لفظ ہی لفظ ہیں
اور انہی سے میں کوزے بنانے کے فن میں ہنر مند ہوں
ہاں ، جہاں زاد سے میری بھی رسم و رہ ایک مدّت سے ہے
اور فن کے تجاذب کی تحریک بھی مجھ کو دی ہے کسی ایک ’’نادان‘‘ نے
اپنی کچی جوانی کی نا پختہ پہلی بلوغت کے دن
جب وہ ’’نادان‘‘ تھی
میں بھی نادان تھا
نا رسا آس تھی
بے طلب پیاس تھی
چار سو یاس تھی
اس زمانے میں تو
بس ’’گماں‘‘ ہی ’’گماں‘‘ تھی مری زندگی
کچھ بھی ’’ممکن‘‘ نہ تھا
ما سوا اک گزرتی ہوئی رات کے
صبح آئی تو پھر یوں لگا
جیسے خورشید اپنے افق سے فقط ایک لمحہ اٹھا
اور سارے ’’طلوعوں‘‘ کی دیرینہ تاریخ کو بھول کر
پھر افق میں وہیں غوطہ زن ہو گیا
ہاں اگر نونؔ میمؔ آج یک جا کریں
اور راشدؔ کو اس میں ملائیں، تو پھر
ہم اکیلے نہیں
راکھ میں اب بھی کچھ کچھ سلگتی ، دھواں دیتی چنگاریاں
اک صراحی کی گردن کے ریزے، تراشے لب جام کے
خول بط کا، کسی آبگینے کا ٹوٹا ہوا
ایک خردہ، ’’گل و خاک کے رنگ روغن‘‘ہیں سوکھے ہوئے
سب تبرکات جو’’ اک جواں کوزہ گر‘‘
’’اپنے کوزے بناتا ہوا، عشق کرتا ہوا‘‘
’’اپنے ماضی کے تاروںمیں ‘‘ راشدؔ سے بھی اور مورخ سے بھی
عشق اور فن کے بندھن میں باندھا گیا
الٹو پلٹو، کہ یہ ’’رنگ و روغن کی مخلوق‘‘ شاید تمہارے لیے
کوزہ گر اور جہاں زاد کے عشق کی
ما بقیٰ داستاں میں اضافہ کرے
اور تاریخ داں، تو اگر داستاں یہ سمجھ جائے، تو
کوزہ گر کے خیالوں کی، خوابوں کی مورت بنا
’’عشق کے معبدوں پر ‘‘ عقیدت سے جا کر چڑھا
وہ’’پسینے کے قطرے‘‘، وہ ’’ فن کی تجلّی
رسالت کا وہ درد ، جوکاروانوں کی مٹّی سا جیسے
’’ رواں ہے زماں سے زماں تک‘‘
جسے ہفت خواں شاعروں نے
محبت کے قصوں میں گھڑ کر امر کر دیا
کیایہی ایک مقصد تھا راشدؔ تمہارا
کہ کوزے پکانے کی
یخ بستہ سوئی ہوئی راکھ میں کچھ سلگتے ہوئے کوئلے
گر ملیں
توکہانی گھڑیں
اورثابت کریں ،عشق’’ سریاب‘‘ بھی ہے تو’’ پایاب ‘‘بھی
اور حسن کوزہ گر، قیس و فرہاد سب
اپنی اپنی جگہ
کامراں بھی ہوئے اور ناکام بھی
اور ہم داستانیں جو لکھتے رہے
اپنے اپنے دلوں میں کہیں
برگ گل کی طرح
ایک چہرہ سجاکر اسی کی پرستش میں غلطاں رہے
اپنے اپنے دلوں میں سجائے ہوئے
ایک چہرے میں لیلیٰ بھی مستور ہے
اور شیریں بھی ہے
ہاں، حسنؔ کوزہ گر کی جہاں زادؔ کو
وہ رسائی نہ مل پائی جس کی وہ حقدار تھی
اور راشدؔ کا فن
لوک قصّوں ، اساطیر یاعشق کی
داستانوں کے فن سے بہت دور تھا
یہ بھی سچ ہے کہ راشدکی یہ چار نظمیںبہت خوب ہیں
پر مورخ کی یا قصّہ گو کی نہیں!