نوشی ملک
وہ کلمہ پڑھ لیا میں نے
جسے بے اثر ہوتے دیکھ کر
کسی انجانے خوف سے خود لکھاری نے مٹایا ہے
جسے لوح وفا نے پھر بھی گنگنایا ہے
سنو!
اے گرہن زدہ ذہنو
زنگ آلود دل والو
جبین وقت پر
کسی حاکم کے ڈر سے
کہ اک معصوم قاری سے
جو تم نے جھوٹ بولے ہیں
جو تم سے بن پڑے تو
دلوں کے حبس کو
تھوڑی سی ہوا دے دو
تم اپنی راست گوئی کی خو کو
تھوڑی سی جلا دے دو
حق نگاری کا کوئی نقش ہی بنا ڈالو
وہ نوحہ لکھ ہی ڈالو
کہ جس کی تلخی ابھی ماحول میں
کچھ زہر تو گھولے گی مگر
اک دن یہی تلخی تریاق ٹہرے گی