ذرا دیر ٹھہرو
اے ننھے پرندو!
کہ جس نے بھی سورج کو زنجیر ڈالی
تمہارے پروں پہ ہے تیزاب پھینکا
ہواؤں میں شامل کیا زہرِقاتل
ابھی جان لیں گے
ہماری تمہاری کئی سال پہلے کی یادوں کا منبع
محلے کا وہ بوڑھا پیپل کہ جس نے
تمہیں ۔۔۔۔۔ تپتی دھوپوں میں سایہ دیا تھا
آندھیوں،بارشوں میں ٹھکانہ دیا تھا
ہمیں ۔۔۔۔۔۔۔ اپنی بانہوں میں جھولے دیے تھے
ہے جس نے گرایا
ابھی کھوج لیں گے!!
یہ جس نے بھی بستوں میں پستول ڈالے
اداسی اور نفرت کے تعویذ گھولے
ابھی ڈھونڈ لیں گے
ذرا دیر ٹھہرو!
ابھی ہجرتوں کے وہ موسم نہیں ہیں
یہاں اب بہاروں کی آمد کے دن ہیں