نظم

امکان : ڈاکٹر عاصم بخاری

اگرچہ رات گہری ہے
ہر اک جانب اندھیرے کی عجب چادر
سی لپٹی ہے
عجب سی خامشی نے ہر طرف کو گھیر رکھا ہے
صدا کوئی نہیں ہے
اور یہ آنکھیں ابھی منظر بنانے کی
تگ و دو سے بھی عاری ہیں
یہ اکلاپا کسی کی جان لینے کو پیاسا ہے
فقط سوچوں کا اک اشہب
ذرا سی آن میں کتنی مسافت کاٹ لیتا ہے
اسے وحشت نہیں آتی
بظاہر وقت بھی ٹھہرا ہوا سا ہے
مگر یہ رات کا منظر
انہی پہلے سی راتوں کا تسلسل ہے
اسے بھی بیت جانا ہے
نیا منظر پرانے سب مناظر کو بدل دے گا
اندھیرے مٹ ہی جائیں گے
صدا آ کر خموشی کا فسوں سب توڑ ڈالے گی
مرا وجدان کہتا ہے
سحر کے لوٹ آنے میں ذرا سا وقت باقی ہے

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی