اگرچہ رات گہری ہے
ہر اک جانب اندھیرے کی عجب چادر
سی لپٹی ہے
عجب سی خامشی نے ہر طرف کو گھیر رکھا ہے
صدا کوئی نہیں ہے
اور یہ آنکھیں ابھی منظر بنانے کی
تگ و دو سے بھی عاری ہیں
یہ اکلاپا کسی کی جان لینے کو پیاسا ہے
فقط سوچوں کا اک اشہب
ذرا سی آن میں کتنی مسافت کاٹ لیتا ہے
اسے وحشت نہیں آتی
بظاہر وقت بھی ٹھہرا ہوا سا ہے
مگر یہ رات کا منظر
انہی پہلے سی راتوں کا تسلسل ہے
اسے بھی بیت جانا ہے
نیا منظر پرانے سب مناظر کو بدل دے گا
اندھیرے مٹ ہی جائیں گے
صدا آ کر خموشی کا فسوں سب توڑ ڈالے گی
مرا وجدان کہتا ہے
سحر کے لوٹ آنے میں ذرا سا وقت باقی ہے