سعید اشعرؔ
جلوہ گر شانِ سکندر تجھ سے
فیض پاتے ہیں قلندر تجھ سے
تیرے افکار بصیرت افروز
ایک عالم ہے منور تجھ سے
خشک مٹی کا تقاضا اپنا
ہوئے سیراب سمندر تجھ سے
بت توہمات کے مسمار ہوئے
ڈر گئے وقت کے آزر تجھ سے
تیرا شاہین سدا الا اللہ
وقتِ پرواز لیے پر تجھ سے
عالمِ وجد میں تیرے اکثر
چھوتے جبریل کے شہپر تجھ سے
اک سخن تیرا فضا پر طاری
سج گئے مسجد و منبر تجھ سے
ذکر جب گنبدِ خضرا کا چلا
آپ اپنا ہوا باہر تجھ سے
اسمِ اعظم ہے سخن میں تیرے
موم بن جاتے ہیں پتھر تجھ سے
تیرے دربار میں اب حاضر ہے
اک عقیدت لیے اشعرؔ تجھ سے