اقتدار جاوید
(ادیب کمال الدین ۔۔۔ بابل عراق۔۔۔ پیداٸش 1953)
سمندر شقاوت بھرا باپ ہے
جانتے بوجھتے
مجھ کو چاقو دکھا کر ڈراتا ہے
ظالم سمندر کوٸی جھوٹا وعدہ ہے،
جھوٹا اشارہ ہے،
چیخوں کا انبار ہے
جنگی میدان ہے اور
لوگ آبائی شہروں سے نقلِ مکانی میں مصروف ہیں
رات کو ننگے سوتے ہیں
مچھلی کی صورت
سمندر ہے نظمیں
جو اُن کی کھجوروں کو دم دم جلاتا ہے
تا کہ تری نوجوانی کا اسرار معلوم ہو!
یہ سمندر وہ عورت ہے
جو اپنے کف کھولتی ہے
کسی صبحِ اسطور کے سامنے ناچتی ہے
سمندر تو ڈوبی ہوئی کشتیوں کا کوئی گیت ہے
ایک کپتان کی چیخ ہے
اور
میں ایک مسحور سا لڑکا، اٹھتا ہوں
ریت اور کیچڑ کو محسوس کرتا ہوں
۔ تم نیچے آو
سمندر تو متھ ہے
یہاں روح کے گچھے لہروں پہ گرتے ہیں
جب بھی محبت کے الفاظ اس گھاس پر گرتے ہیں
گھاس اڑ جاتی ہے
وقت معدوم ہو جاتا ہے
تم سمندر سے میرے لیے کون سے لعل لائے ہو
کیسی اداسی لیے
کیسی نادار آنکھیں لیے تم مرے پاس آئے ہو
شہید ہونے والے کے گھر کی تمنا کی صورت،
پیمبر کے خطبے کی صورت
اور اس گیت کی طرح
جس کا ہے مطلب
سمندر ازل سے ابد تک
خدا کے بڑے زخم سے نیچے رِستا لہو ہے
سمندر مرا باپ ہے
آج کی رات
وہ میرے چاقو سے ٹکڑے کرے گا!!