سہمی ہوئی بچی
ٹوٹی چھت تلے اور
میلے کپڑے سے بدن ڈھانپے
پردے کے پیچھے چھپی ہوئی ہے
خوف کی لہر بدن کو مسلسل چھیڑے جا رہی ہے
وہ کم سن بچی
باہر نکلے بھی تو کیسے نکلے
باہر کا منظر بڑا ہولناک ہے
باہر ہوس کی بُو ہے
باہر نکلو تو دم گھٹتا ہے
بندوق سے نکلتی گولیوں کی
آوازیں
بدن چیرتی ہوئی تلواریں
شدت گریہ کی لہریں
اور موت کی جھنکاریں ہیں
وہ باہر کیسے نکلے کہ
ایسی ہی خون سے میلی
نہ جانے کتنی
چادریں سڑکوں پر بکھری پڑیں ہیں
وہ باہر نکلی تو
یہ وحشی درندے نوچ کھائیں گے
وہ باہر نکلے گی تو
اسے خون سے زرد کفن میں لپیٹ کر
گہری نیند سلا دیا جائے گا
کہ زندگی تمام ہو جائے گی
خواب سارے بکھر جائیں گے
اے بزدل شرمسارو!
آزادی کا نغمہ بلند کرو
اُن خون سے لبریز
حسیں وادیوں کو تم بچا سکتے ہو
آواز بنو
ہر اپنی ماں، بہن، بیٹی
جوان اور بوڑھے کی
آواز بنو تم
کہ شہہ رگ سے جڑے
ہر کشمیر کی