شاعرہ : نوشی ملک
میں
محبت کا وفور لیے
اپنے سائباں تلے
نیلے،پیلے،لال،گلابی
رنگ اوڑھے
جب کبھی کاغذ کی پکار پر
قلم اٹھاتی ہوں
خوشبو کی سیاہی سے
پھول لکھنا چاہتی ہوں
تو
میری جنت کی کھڑکیوں سے
درد کی تصویریں
اندر جھانکتی
دہائی دیتی ہیں
کہ ہماری کہانی لکھو ۔۔۔۔لکھو!
ایسے میں
بے حسی میری دستاویز کیسے ہو سکتی ہے
بے ضمیری میرا دستور کیسے ہو سکتا ہے
سسکتی، مجبور
ستم رسیدہ زندگیاں
میرے دل وجان پر کانٹے کی طرح
چبھتی ہیں
میری چوڑیوں کی چھن چھن
بین کرنے لگتی ہے
سوچ کے آنگن میں
امید کا چاند درد سے گہنا جاتا ہے
شہر ذات میں
اداسی کی نیلی چاندنی چٹکتی ہے
کیونکہ
میرا قلم
ان سسکتی،فریب زدہ زندگیوں کا
قرض دار ہے
Iqra khalid
اگست 25, 2019Wonderfull poem yet again ! you are huge inspiration to me and thanks for sharing this