کبیراطہر
جو پہلا اندھا ملے گا اُس کا بھلا کروں گا
نہ جن میں تو ہو میں ایسی آنکھوں کا کیا کروں گا
اسی لیے تو میں عشق پر عشق کر رہا ہوں
کسی نے مجھ سے کہا تھا میں کچھ نیا کروں گا
بھلے تعلق سخن سے ہو یا شکم سے اُس کا
میں اپنے حصے کے رزق پر اکتفا کروں گا
اگر وہ اک شخص میرے حصے میں آ گیا تو
میں شہر بھر کی قضا نمازیں ادا کروں گا
سخن کے سکوں پہ پھر بھی میری شبیہ ہو گی
میں آج مر جاوں سونے چاندی کا کیا کروں گا
میں شہرِغم میں خوشی کو آباد کر رہا ہوں
جب آخری گھر بسے گا میں بھی ہنسا کروں گا
میں مسجدوں کو عزیز جانوں کہ مندروں کو
کبوتروں سے یہ پوچھ کر فیصلہ کروں گا
اناج پیدا کرے گی میرے بدن کی مٹی
میں مر کے بھی زندگی کی حاجت روا کروں گا
حنوط کر ہی لیا ہے آخر کو ہجر میں نے
اب اپنی تنہائی پر کوئی تجربہ کروں گا
کبیر بیساکھیاں چھڑاوں گا اور اک دن
میں اپنے پیروں پہ اپنے دکھ کو کھڑا کروں گا
کبیر اطہر