از : صا ئمہ نسیم بانو
علم بالقلم
وہ قادرِ مطلق, عظیم الشان خالق, تیرا رب جب آسمانی صحیفے کو اپنے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر منکشف کرتا ہے تو جبریل امیں ربِ اکرم کا پہلا حکم سناتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
"اقرا” پڑھ…..
"الذی علم بالقلم”
وہ (تیرا رب )جس نے قلم سے لکھنا سکھایا.
گویا ایک جانب تو مطالعہ اور تصنیف اولین و متبرک احکامِ ربی تھے اور دوجی طرف کتاب ایسے مقبل و مسعود وسیلۂ شعور کے درجے پر فائز ہوئی جو علم, آگہی, عرفان, فیضان, وجدان اور پہچان کی راہ نوردی میں ہر راہرو کی راہبر و رفیق بنی.
مصر کی قدیم رائل لائبریری کی داخلی چوکھٹ کے اوپر ایک کلمہ درج ہے کہ
"the house of healing for the soul.”
یعنی مطالعہ محض حصولِ علم کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ تطہیرِ نفس اور تذکیرِ روح کا ضامن بھی ہے. اسی طرح کتاب اور مطالعے کی قدر و منزلت کا ذکر کرتے ہوئے ایک عربی شاعر متنبی کہتا ہے کہ
"وخیر جلیس فی الزمان کتاب”,
زمانے میں بہترین ہم نشین کتاب ہے.
کسی بھلے انسان نے کہا تھا کہ "کتاب انسان کے برتے ہوئے شعور کی مصفہ اطلاع ہے.” انسان اور کتاب کی دوستی ایک داستانِ عہدِ کہن سے کم نہیں اور ایسے ہی مطالعہ اور شعور کئی قرنوں سے ایک دوجے سے مربوط اور متصل ہیں. کتاب اپنے اس ارتقائی سفر میں کئی منازل سے گزری، کبھی وہ قصہ گو کی میراث بنی تو کبھی اسے حافظ کے حافظے نے قید کیا. کبھی پتھروں پر کندہ کی گئی تو کبھی اپنی معروف اور مروج شکل قرطاس و قلم کی جوڑی سے سجائی گئی، لیکن یہ یہاں پر بھی نہ تھمی. پہلے سمعی و بصری تکنیک کے ہاتھ لگی تو آج یہ برقی شکل میں اس نئے دور کے جامِ جہاں نما پر راج کر رہی ہے.
کتاب نے صرف اپنی پوشاک ہی نہیں بدلی بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس کا پیکر بھی تبدیل ہوتا رہا اس نے روزنامچوں, اخبار, رسائل, جرائد اور مجلوں کی شکل دھاری اور اب بدلتے زمانے میں کہ جب ہم برقی اور تصویری دور کی ابتداء کر چکے اور کہا جاتا ہے کہ آنے والی صدی بصیرت کا سفر بذریعہ بصارت طے کرے گی، تو ایسے میں یہ اپنی معروف اور معتبر حالت یعنی اشاعت بذریعہ طباعت کے روپ میں موجود ہونے کے باوجود سائیبر سپیس میں بھی یکساں طور پر مقبول ہے اور اس کا برقی مطالعہ بھی قارئین میں اپنی جگہ بخوبی احسن بنا چکا ہے۔ برقی مجلوں کی یلغار نے ایک پور کی جنبش پر دنیا جہان کی معلومات تک قاری کی رسائی ممکن اور لکھاری کا اظہار آسان بنا دیا ہے.
آج جب سیاست, سیاحت, معاشرت, معیشت, مذہب، روایت، فن و ادب، جدت، قدامت، حریت، رومانیت, حقیقت پسندی, ترقی پسندی جیسے موضوعات پر بات کرنے والے ہر طرح کے برقی مجلوں کی بھر مار ہے تو ایسے میں ادبی دنیا کے افق پر جگمگاتے ستارے ڈاکٹر یونس خیال صاحب نے ادبی و جمالیاتی مکتبۂ فکر اور طرزِ تحریر کو فروغ دینے کا خواب دیکھا اور اس خواب کو "خیال نامہ” کے نام سے موسوم کیا. یہ خیال نامہ کتاب اور مطالعہ کی روایت کا ایک ایسا منفرد مینی ایچر ہے جو برقی مجلے کی صورت ہم تک پہنچے گا. میں امید کرتی ہوں اور تہہِ دل سے دعا گو ہوں کہ خیال نامہ کے وسیلے سے جناب ڈاکٹر یونس خیال صاحب جو ایک بہترین نویسندہ, شاعر, سخنور اور سخن شناس شخصیت ہیں, بطور مدیرِ اعلی اور مہتممِ خیال نامہ, علم و آگہی کی ترسیل اور خیال و اظہار کے ابلاغ کا حق ادا کر پائیں. یہاں اظہار کے نام پر لکھی جانے والی ہر تحریر قاری سے اپنا سمبندھ جوڑ پانے پر قادر ہو. اللہ تعالی ان کی اس علمی اور ادبی کاوش کو مقبول و منظور فرمائے. آمین ثمہ آمین۔
صائمہ نسیم بانو
١٢ جولائی ٢٠١٩