کالم

ماریو ورگاس، مارکیز اور شراب خانے : اقتدار جاوید

 

ایک ساٸٹ ہے thewriterpractice.com یہ ساٸٹ افسانے اور کہانیاں لکھنے کی ترغیب بھی دیتی ہے، لکھنے کی عادت ڈالتی ہے اور انعامی مقابلے بھی انعقاد کرواتی ہے اس دفعہ انہوں نے isloation اور لاک ڈاون کا موضوع رکھا ہے اور ساتھ انعامی رقم بھی ایک ہزار دو صد ڈالز۔یعنی جسے پنجابی میں کہتے ہیں چوپڑیاں اور دو دو۔آٹھ جون تک انرولمٹ ضروری ہے ہمارے افسانہ نگاروں کے لیے خاص موقعہ ہے کہ انہیں اس کا تجربہ بھی ہے اور اب تو ترجمہ کرنا کچھ اتنا مشکل نہیں رہا مختلف ایپس کی مدد سے بھی آپ ایک اعلٰی ترجمہ کرنے پر قادر ہو سکتے ہیں جیسے کاتب تاریخ کا حصہ بن گٸے ہیں ایسے ہی کہیں ترجمہ نگاروں کے ساتھ نہ ہو،وقت دو دو ہاتھ نہ کر جاٸے۔ ایسولشن پر پروفیسر اسحاق وردگ نے کروناٸی ادب یکجا کر کے خیالنامہ کی ساٸٹ پر ایک طویل مضمون کی صورت میں شاٸع کیا ہے۔ایڈ ینگ ملایشیا نژاد ناول نگار ہے اس نے بھی دو سال قبل کرونا نام کا ناول لکھ کر کافی پیسہ بنایا ہے یعنی اُدھر لکھ کر پیسہ کمایا جاتا ہے یہاں پڑھ لکھ کر پیسہ بنایا جاتا ہے۔
مارکیز اور اس کا دوست ماریو ورگاس دونوں دوست بھی تھے دونوں نوبل لاریٹ بھی تھے اور دونوں سیاست میں باقاعدہ حصہ لیتے تھے اور ناول بھی لکھتے تھے اور پیسہ بھی کماتے تھے۔مارکیز پکا لیفٹسٹ تھا۔مارکیز کا معنی ہے مارکوس کا بیٹا۔۔اس کے دو بیٹے ہیں (ایک کا نام گونزلو ہے یہ کوٸی اطالوی نام لگتا ہے)۔ مارکیز صبح صبح لغت کا مطالعہ کرنے کا عادی تھا اور جسقدر دلچسپ اور گندھی ہوٸی نثر اس نے لکھی اس سے بھی اس اس امر کی گواہی ملتی ہے تازہ اور نٸی نثر!
پیرو کا شہرہ آفاق ادیب ماریو ورگاس للوسا انہیں ورگس للوسا کا مارکیز اول بھی کہتے ہیں یہ بھی نوبل لاریٹ ہیں اور اسے 2010 میں نوبل پراٸز ملا۔ماریو ورگاس جرنلسٹ ہیں مضمون نگار ہیں کالم نگار اور سیاستدان ہیں۔دوستیاں بھی سیاستدانوں سے تھیں فیڈرل کاسترو مارکیز کا یارِ غار تھا۔
ان دونوں نوبل لاریٹس کی دوستی بھی رہی اور باہمی چپقلش بھی اور اور پھر چالیس سال تک اک دوسرے سے کلام بھی نہ کیا۔اس نے مارکیز کی ”فیصلے کی کہانی“ پر تفصیلاً نوٹ لکھا لیکن بعد میں وہ ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گٸے۔اس کے تین ناول تو بہت اہم ہیں ایک بکری کی ضیافت، چرچ میں مکالمہ اور دنیا کے اختتام کی جنگ اور تینوں کے اردو تراجم ہماری نظر سے نہیں گزرے۔البتہ فارسی میں جنگ آخرالزمان اور گفتگو در کاتدرال کے نام سے شاٸع ہو چکے ہیں۔ایران میں تراجم کے شاندار انتظامات ہیں ہماری حکومتوں کی طرح نہیں۔
آخر کیا وجہ ہے ہمارے سیاستدان ادیب نہیں ہیں اور ادیب سیاستدان نہیں۔
ہمارے پاس جھونگے میں دو تین سیاستدانوں کی تصانیف ملتی ہیں مگر نہ انہوں نے بھی نہ خود لکھا نہ ان کا اپنا اسلوب نگارش بس ڈکٹیشن سے ہی کام چلایا البتہ پیسہ ہمارے سیاستدانوں نے نوبل پرایز کی رقم سے زیادہ کمایا یہ ایک کھلا راز ہے۔
ہم نے مارکیز کی تقلید میں لغت کھولا کہ دیکھیں کہ جس سٹیمپ پیپر پر ایک سیاستدان کو باہر بھیجا گیا اس کی اردو کیا ہے یہ لفظ تو ہمیں نہ ملا مگر وثیقہ نویسی کا ہم نے ازخود سن رکھا تھا اسی وثیقہ سے ہمیں ایک نیا اور تروتازہ لفظ وثاق ملا وثاق سے ہمارا دھیان میثاق کی طرف گیا اب اس سے آگے ہماری عقل جواب دے گٸی کہ کسی زمانے ایک میثاق جمہوریت بھی ہوا تھا۔پھر تو اللہ دے اور بندہ لے۔ اس آیسولیشن اور کرونا کے دنوں میں جو دو صحافی بھاٸیوں کے حوالے سے کہانیاں گردش کر رہی تھیں رہ رہ کے یاد آنے لگیں اور تان دس بھینسوں پر آ کر ٹوٹی۔بھینس باندھنے کی چیز ہے مگر بھینس کو اگر کسی شاعر نے باندھا یا باندھنے کی ہمت کی تو وہ ظفر اقبال کے علاوہ کون ہو سکتا ہے
نہ کوٸی بھینس رکھتے ہیں نہ کوٸی گاٸے رکھتے ہیں
مگر ہم دودھ کے بارے میں اپنی راٸے رکھتے ہیں
اپنی زندگی کی کُل جمع پونجی سے دس بھینسیں تو ہم بھی خرید سکتٕے ہیں مگر کسی ٹٹ پونجیے نے نہیں بتایا کہ اس سے کماٸی اور گزارا کیسے ہو گا۔ٹٹ پونجیے کا جمع پونجی سے براہ راست تعلق ہے پونجی سے لگتا ہے کہ دونوں کا مادہ اک ہی ہو گا۔ ماہر لسانیات تو Butter کا ماخذ Prato Indian Route PIR کے توسط سے گھیو مانتے ہیں۔گھیو اسی گاو ماتا سے ماخوذ ہے۔بدھا اسی سدھ بدھ سے ہے اور بودھی سدھ بدھ رکھنے والے کو ہی کہتے ہیں۔ ماہرین ِ لسانیات کیسی کسی گتھیاں سلجھاتے ہیں اور ہماشما کے لیے روشنی فراہم کرتے ہیں ورنہ ہم تو لفظ کے مسلسل استعمال سے اس کی اصل اور اصل حسن کو دریافت نہیں کر پاتے۔
ایک پاٶ سیر کا چوتھا حصہ ہے مگر ہمارے ہاں اک لفظ پوّا بھی مستعمل ہے یعنی چاٸے کا ایک پوّا وہی جسے منیر نیازی نے شراب کی مقدار کے لیے برتا ہے
چونکہ حکومت نے شراب خانے کھول دٸے ہیں تو پوّا کا استعمال تو قانوناً بھی درست ہو گا۔عبدالرشید نثری نظم کا بانی مبانیوں میں بھی ہیں اور مبارک احمد اور احمد ہمیش کی طرح کی نثری نظم لکھی بھی نہیں انہیں منیر نیازی نے چند اعلیٰ انگریزی کتب دیں اور بر بناٸے محبت اس کے عوض ایک پوّا شراب کا تقاضا کیا جو انہوں نے کمرشل مارکیٹ بالمقابل قدیم ٹولنٹن مارکیٹ کے مے خانہ سے پلوا بھی دیا۔پوا ہندی الاصل ہے اردو میں آ کر پاو ہو گیا۔
شراب کا موضوع ہماری پاکستانی غزل سے غاٸب ہوگیا تھا بھلا ہو کہ مے خانے کھل گٸے ہیں کہ یہ ایک طرح سے اردو غزل کی خدمت ہی ہے۔ایک شاعر نے منیر نیازی کے سامنے شراب پی اور الٹی کر دی منیر نے کہا شراب بھی دیکھ لیتی ہے اسے کون پی رہا ہے۔ کیا زمانہ ہے کہ اب ہماری نسل کے اور بعد آنے والے شعرا شراب اور مے خانے پر شعر ہی نہیں کہتے کہ ان کے مشاہدے میں شراب خانہ ہی کہیں نہیں شعر کہاں سے آٸے۔دواکر راہی کا شعر ہے
اب تو اتنی بھی میسر نہیں مے خانے میں
جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں
اور عدم کے بعد شراب تو گویا شاعری میں بھی حرام ہو گٸی۔سنا ہے کچھ نوجوان شاعر پینے پلانے کے رسیا ہیں تو شاید اب شاعری میں شراب دخل در معقولات کرے۔
ہمارے دوست شہزاد احمد نے کہا تھا
کھلی فضا میں اگر لڑکھڑا کے چل نہ سکیں
تو زہر پینا ہے بہتر شراب پینے سے
منیر نیازی کی شراب ترقی پسندی کے بغیر بھی دو آتشہ تھی جوش کی شراب نوشی بھی لاجواب تھی اور خدا سے نوک جھونک بھی اپنی وضع کی تھی۔ایسے ہی مارکیز کا کہنا ہے خدا نے اتوار کو آرام کیا تھا ورنہ اس نے ساتویں دن دنیا کو ختم کرنے کے علاوہ کیا کرنا تھا۔ مارکیز پکا ملحد تھا مگر کہتا تھا کہ میں خدا سے ڈرتا بہت ہوں۔

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی