کالم

عجیب درد ہے جس کی دوا ہے تنہا ئی : ناصر علی سید

بہت چپ چپ سے گزرتے ان دنوں کی جھولی میں بیتے ہوئے کچھ اچھے وقتوں کی یادیں تو ہیں مگر آنے والے زمانے کے لئے سر ِ دست بجز غیر یقینی کے اور کچھ بھی نہیں ہے،یہ وبا کا موسم ہے اور دل میں جانے انجانے اندیشوں کی دھند گہری ہوتی جارہی ہے، کب کہاں اور کیسے، کوئی بھی اس کی زد میں آ سکتا ہے ہاں مگر احتیاط سے خود کو بچایا جا سکتا ہے، یہ اور بات کہ یار لوگ بہت جلد یکسانیت سے اکتا جاتے ہیں اور کسی نئی مہم جوئی پر نکل پڑتے ہیں،من و سلوی کاواقعہ بطور ثبوت پیش کیا جاسکتا ہے، لیکن عمومی طور پر انسانی فطرت میں قدرت نے یہ لچک بھی رکھی ہوئی ہے کہ وہ نئے حالات سے سمجھوتہ کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتا، اگر چہ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی کوئی ایسا بھی ہو جس میں خود کو نئے حالات میں ڈھالنے کی صلاحیت ہی نہ ہو اور وہ ایک مضطرب سی زندگی گزارنے پر مجبور ہو کیونکہ، بعض لوگوں کے اندر کچھ تلخ لمحات رک سے جاتے ہیں جن سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں ہو تا، جن دنوں میں گلشن رحمان کی سرکاری رہائش گاہ میں تھا تو میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی تھی اس کی بیوی گلشن رحمان کے کئی گھروں میں کپڑے دھوکر گزر اوقات کیا کرتی تھی، اس نے ایک دن اپنے شوہر کے بارے میں بتایا پہلے وہ کام پر جایا کرتا تھا مگر اب کئی سال سے گھر میں بے کاربیٹھا ہوا ہے کام پر جانے کا کہو تو کاٹنے کو دوڑتا ہے، میں نے کہا اسے میرے پاس بھیجو میں کوشش کرتا ہوں، جب وہ آیا، بات چیت ہوئی تو اس نے عجیب بات بتائی، وہ ایک تعمیراتی ٹھیکدار کے پاس اینٹیں گارا ڈھوتا تھا، کہنے لگا کہ ایک دن میں سر پر اینٹیں اٹھائے سیڑھی پر چڑھ رہا تھا کہ میرے محلے کا ایک لڑکا بھاگتا ہوا آیا اور چیختے ہوئے مجھے اطلاع دی کہ میرے چھوٹے بھائی کو کسی نے قتل کر دیا ہے، اب اس بات کو پانچ سال ہو گئے ہیں مگر وہ چیخ کہیں میرے اندر رک سی گئی ہے، جونہی کام پر جانے کا سوچتا ہوں، وہی چیخ کانوں میں گونجنے لگتی ہے، میں یہ سن کر بہت حیران ہوا تھا کہ ایک غیر تعلیم یافتہ اور فلسفہ و نفسیات سے نا بلد شخص بڑی سہولت سے کہہ رہا تھا کہ ”وہ چیخ کہیں میرے اندر رک سی گئی ہے“ اپنے دکھ کے ساتھ زندگی گزار نے والے شخص کو بھلا میں کیا سمجھاتا،پڑوسی ملک کی ایک آرٹ مووی ” سارا نش “ کم و بیش اسی مو ضوع پر بنی ہے، یہ ایسے ماں باپ کی کہانی ہے جن کا اکلوتا جوان بیٹا بیرون ملک ایک حادثے میں مر جاتا ہے، مگر ماں کو یقین نہیں آتااورپھر ماں اس یقین کے ساتھ جیتی ہے کہ اس کا بیٹا ایک دن لوٹ آئے گا۔ تو اس طرح کے کردار اور واقعات اس انسانی زندگی کی پیچ در پیچ گلیوں میں ضرور مل جاتے ہیں،ادب کی دنیا بھی ماضی میں خوش رہنے والوں کی کہانیوں اور شاعری سے بھری پڑی ہے اس طرح کے تخلیق کاروں میں ، ایک بہت بڑا نام انتظار حسین کا بھی ہے، ہر چند کہ ان کے ناسٹیلجیا میں ان کی فنکاری کا عمل دخل زیادہ ہے۔ بات وبا کے موسم میں چپ چپ گزرنے والے دنوں کی ہو رہی تھی،اب ملاقاتوں میں وہ ترتیب باقی نہیں رہی شاید ان کو ’ عبد الحمید عدم‘ کی نظر کھا گئی
ملاقاتیں مسلسل ہوں تو دلچسپی نہیں رہتی
یہ بے ترتیب یارانے حسیں معلو م ہو تے ہیں
لیکن اب تو اکتنے ہی اپنے پیاروں سے ملے ہوئے ایک یگ بیت چلا ہے، مجھے یاد کہ جب گزشتہ سال کے اوائل میں ا ئیر یونیورسٹی کے مشاعرہ کے لئے راولپنڈی میں تھا تو اس وبا کی چاپ سنائی دینے لگی تھی، دوسرے ہی دن دوست عزیز جلیل عالی کے گھر شام کو دوستوں کا اکٹھ تھا، جن میں افتخار عارف،محبوب ظفر، حمید شاید، راشد حمید،ادریس آزاد سمیت بہت سے دوست موجود تھے میں اور رفعت علی سیّد بھی شریک تھے، چائے کے وقفے میں دوست مہرباں محمود شام کا بہت عمدہ شعر کسی نے وٹس ایپ پر شئیر کیا تو میں نے فورا سب دوستوں کو نہ صرف شعر سنایا بلکہ اسی وقت محمود شام کو فون کر کے سب دوستوں کی بات بھی کرائی، ابھی 2020 کا آغاز تھا یہ شعر بعد میں سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوا
عجیب درد ہے جس کی دوا ہے تنہا ئی
بقائے شہر ہے اب شہر کے اجڑنے میں
اور اب دو دن پہلے مجھے محمود شام کا ایک مختصر اور سادہ سا میسج ملا تو جیسے دل بھر آیا۔ انہوں نے لکھا تھا ”کیسے ہیں؟ عرصہ ہوا نہ سلام نہ دعا۔“ پڑھ کرکتنی ہی دیر چپ رہا، یادش بخیر کچھ عرصہ پہلے عزیز از جاں میجر عامر کا بھی فون آیا تو کہنے لگے ”ملاقاتوں پر پابندی ہے مگر فون پر تو نہیں ہے نا۔تو یاد آیا کہ ملے اور بات ہوئے جیسے مدتیں ہو گئی ہیں کیفی اعظمی نے کیا خوب کہا ہے
آ ج سوچا تو آنسو بھر آئے
مدتیں ہو گئیں مسکرائے
سو دوستو یہ دن بس چپ چپ رہنے کے ہیں، اپنے ساتھ مکالمہ کرنے کے ہیں غنیمت ہے کہ اطراف سے احباب کی کتابیں مل رہی ہیں جو تنہائی کا کو ہ ِ بے ستوں کاٹنے میں بہت مدد دیتی ہیں۔ مقبول اور معروف فلم و ٹی وی سٹار امان کو میری طرح بہت سے لوگ ایک عمدہ ایکٹر کے طور پر جانتے ہوں گے لیکن اب جو ان کی عمدہ خود نوشت ملی تو خوشگوار حیرت ہوئی، اداکاری سے ایک زمانے کو اپنا گرویدہ بنانے والے امان نے جب اپنی خود نوشت ”میں ایک فلاپ ہیرو تھا۔۔ لیکن“لکھنے کے لئے قلم اٹھایا۔ تو بڑے تخلیق کاروں کی طرح کسی بھی مرحلہ پر اس نے سچ سے دامن نہیں چھڑایا، نہ ہی مصلحت کا شکار ہوا کوئی بھی کیا کہے گا اس کا مسئلہ ہی نہ تھا، جو تھا جو ہے اور جو ہوا اس خوبصورت اور دلنشین خود نوشت میں موجود ہے اور جو شہر کے سارے اچھے بک سٹال پر دستیاب ہے،کتاب میں شامل حسن نثار،مشتاق شباب،اباسین یوسفزئی، گوہر نوید، ساتھی ادکار آصف خان کے مضامین اور تاثرات امان کی اس خود نوشت کو خراج پیش کرتے ہیں،، چند سطریں میں نے بھی اس کتاب پر لکھی ہیں، پیش ہیں
” میں ایک فلاپ ہیرو ہوں۔۔ لیکن “ فلمسٹار کی ایک ایسی آپ بیتی ہے جس میں سارے واقعات بلا کم و کاست اس انداز میں یکجا کر دئیے گئے ہیں کہ پڑھتے ہوئے مجھے امان کے ساتھ ساتھ بے اختیار ہنسنا اور رونا پڑ رہا تھا، میں سچ کہتا ہوں بہت دنوں بعد میں ایک ایسی دل کو کہیں بہت اند رسے چھونے والی خوبصورت، پر تاثئیر تحریر پڑھی ہے، واقعات کا ایک نہ ختم ہونے والا بہاؤ ہے جس میں امان کے ساتھ ساتھ بہنا پڑتا ہے، پرائمری سکول کے قصے پڑھتے ہوئے حیرانی ہوتی ہے کہ امان کو کیسے ’یاد سب ہے ذرا ذرا“ خود لکھتے ہیں کہ عمر کے آخری آخری پڑاؤ پر اوائل عمر کے شب و روز یاد آ نا شروع ہو جاتے ہیں، پھر شہر کے سکول کے پہلے دن،ٹسٹ کے ریزلٹ کے نمبروں میں تبدیلی کی کہانی سے لے کر ڈگری کالج تک پہنچنے کے واقعات اور ”لی گروپ“ کی ساری شرارتوں کی تفصیل میں بلا کی روانی اور بے ساختگی ہے،بس پڑھتے جائیے سر دھنتے جائیے اور سرشار ہوتے جائیے کہیں تحریر بوجھل یا ڈریگ نہیں ہوتی۔، ڈگری کالج کی داستان نے اس قصہ گو کے اس راز سے بھی پردہ اٹھایا کہ وہ محض ایکٹر نہیں ہے اس نے تو اوائل عمر ہی سے نہ صرف نسیم حجازی کے ناول اور شعر و ادب پڑھنا شروع کر دیا تھا بلکہ ترجمہ اور شعر و افسانہ کی بانبی میں بھی ہاتھ ڈالا ہوا تھا اور اس کے افسانہ ” جس کی بہار یہ ہو اس کی خزاں نہ پوچھ“ نے اس کے لئے کالج میگزین ”گومل“ کے سٹوڈنٹ ایڈیٹر (اردو سیکشن) کا چناؤ ممکن بنایا، اس خود نوشت میں ٹی وی ڈرامہ کی ”فلیش بیک“کی تکنیک سے بھی کام لیا ہے۔جیسے پرائمری سکول کا ذکر کرنے کے بعد امان نے وہ واقعہ بھی لکھا ہے جب ساٹھ برس بعد وہ اپنے بیٹے کو وہ سکول دکھانے لے گیا، جہاں اس کا خیال تھا کہ ہیڈ ماسٹر اسے کوئی چائے پانی پلائے گا مگر ایسا کچھ نہ ہو سکا (شاید ہیڈ ماسٹر اسے اب بھی ایک سٹوڈنٹ سمجھ رہا تھا اور ایک شاگرد کو چائے پلانا اسے گوارا نہ تھا) امان کی اس خود نوشت کو کہیں سے بھی خصوصاََ پہلا حصّہ اگر بار بار بھی پڑھا جائے تو واقعات کا لطف اور تحریرکا ذائقہ پڑھنے والوں کو بے مزہ نہیں ہونے دیتا۔ یہ بلا کا محبتی قصہ گو جب اپنی داستان کے اس موڑ پر پہنچتا ہے جہا ں سے اس کا فلم کیرئیر شروع ہو تا ہے اس کے قلم میں بھی وہی تیزی اور بے باکی آ جاتی ہے جو فلم انڈسٹری کے مزاج میں ہو تی ہے، اب وہ ”لی گروپ“ کا کھلنڈرا نو جوان نہیں رہتا اب اسے لالی وڈ کے باسیوں کے ساتھ رہنے کا ہنر سیکھنا پڑا، اس لئے ان دنوں کی کہانی لکھتے ہوئے اس کی تحریر میں ایک تیکھا پن آ جاتا ہے منافقت اور جھوٹ کی دنیا سے بہت فاصلے پر رہنے والا امان سچ کہنے اور لکھتے ہوئے ذرا بھی رو رعایت برتنے کو تیار نہیں ہو تا اس لئے ممکن ہے یہ سچ کچھ لوگوں سے ہضم نہ ہو سکے مگر امان کسی طو ر اپنی جیون کہانی میں حکمت عملی یا مصلحت کا پیوند لگانے کو تیا ر نہیں،وہ ایک سچا داستان گو ہے جس نے نہ تو اپنے والد کے کسی سنگر سے عشق پر پردہ ڈالا،نہ بیٹے کی نوکری کے لئے اپنے بے تکلف دوست کے پاس سفارش کے لئے جانے اور وہاں سے مایوس لوٹنے کا دکھ چھپایا، نہ ہی صدارتی ایوارڈ کے حصول کے لئے اپنی تگ و دو کو صیغہ ئ راز میں رکھ ا، نہ انگلینڈ میں گزارے ہوئے اپنے شب و روز کی سرگرمیوں کو اپنی کہانی سے سنسر کیا اور نہ اس خود نوشت کی اشاعت کے لئے مستنصر حسین تارڑ کی سرد مہری اور کٹھور پن کو حذف کیا، اسے علم تھا کہ لوگوں کے روّیے وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں جب وہ سٹار تھا تو احباب کی ملاقاتوں میں بلا کی گرمجوشی تھی،اور ذرا ہوا بدلی اور انڈسٹری زوال پزیر ہوئی تو پھر ” کس نہ می پرسد کہ بھیا کیستی“۔ امان کی تحریر میں ادبی چاشنی ، بھید بھاؤ اور رکھ رکھاؤ دل موہ لیتا ہے پھر اسے منظر کشی پر مکمل عبور حاصل ہے وہ جب شفق سے آسمان کے کناروں کو تارنجی بنانے والی شام کی لفظی تصویر بناتا ہے تو غزل کے شعر کی طرح بے ساختہ منہ سے ”مکرر ارشاد“ کا نعرہ بلند ہو تا ہے اور اس کے جواب میں ان سطور کو خود ہی بار بار پڑھنا پڑتا ہے، تاہم جس باب نے مجھے چپ کرا دیا ، میری آنکھوں میں دھواں بھر دیا اور کتاب سینہ پر رکھ کر مجھے اپنے اعصاب سہلانے پر مجبو کیا وہ امان کے جیون ساتھی کے بچھڑنے کا منظر تھا۔ میرا ہیرو اپنی زندگی کی پلاٹینیم جوبلی مناتے ہوئے آج بھی وکٹری سٹینڈ پر کھڑا ہے اور اس خود نوشت کے شائع ہونے کے بعد آنے والے وقتوں میں بھی تاریخ کے پنوں میں تابندہ رہے گا کہ اس کے قلم نے زندگی کے کسی بھی موڑ پرکسی قسم کی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر ڈنکے کی چوٹ پر جو کہا ہے سچ کہا ہے سچ کے سوا کچھ نہیں کہا۔امان سے اس نمبر پر 0300 589 4218 پر رابطہ کر کے کتاب کے حصول کا طریقہئ کار معلوم کیا جاسکتا ہے۔ فنکار ہمیشہ پر فارمنس میں ایک آنچ کی کسر چھوڑ دیتے ہیں۔لیکن امان نے ایسا کچھ نہیں کیا کہ کہا جا سکے
کچھ ذہن کے پردے میں چھپا لیتا ہے فنکار
تصویر کا ہر نقش ہویدا نہیں کرتا

(بشکریہ ادب سراےٗ)

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی