کالم

شاہزادی ترے انکار سے کیا ہو تا ہے : ناصر علی سیّد

بہت پہلے غالباََ ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں نقوش لاہور کے شوکت تھانوی نمبر کے لئے شوکت تھانوی نے اپنا بہت خوبصورت خاکہ لکھا تھا اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ جب موسم گرم ہونے لگتا ہے تومیں اپنے بچوں سے کہتا ہوں ”توشاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر“ اور ان کو کسی ہل سٹیشن پر بھیج دیتا ہوں، تب تک میں کسی ہل سٹیشن پر نہیں گیا تھا تو اس خوبصورت سطر کو بار بار پڑھ کر خود کو ڈھارس دیتا تھا کہ کبھی تو گرم موسم میں ٹھنڈی رت دیکھنے جاؤں گا، جب ستر کی دہائی کے اوائل میں پشاور آ یا تو پہلی بار کچھ پشاوری دوستوں کے ساتھ’ملکہ کوہسار مری‘گیا تھا،اس سفر میں معروف افسانہ و خاکہ وناول نگار داؤد حسین عابد بھی ہمراہ تھا اور مری مال روڈ کی سیر کے دوران داؤد حسین عابد کو ایک دوست ملا،یہ ایک دبلا پتلا سا لڑکا تھا جس نے چائے کی دعوت قبول کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کی کیونکہ اس طرح اسے اپنے شہر کے کچھ دوستوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا موقع مل رہا تھا۔عابد نے تعارف کرایا کہ یہ شاعر ہیں اور اس سے چائے کے ساتھ ساتھ شعربھی سنتے بھی ہیں اور سناتے بھی ہیں،گپ شپ کرنے شعر و شاعری سنانے اور چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے میں بظاہر تو چند لمحے لگے، مگر وہ جو میر جی نے کہا ہے
روز آنے پہ نہیں نسبتِ عشق موقوف
عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے
سویہی ایک ملاقات مری سے پشاور تک جب آئی تو پھر بڑھتی ہی چلی گئی داؤد عابد تو پشاور کو چھوڑ کر امریکہ کے ہو گئے مگراس دبلے پتلے شاعر کا جو تحفہ مجھے دے گئے تھے اس سے ناتا آج بھی اسی طرح قائم ہے، ہم ایک دوسرے کی محفلوں اور تنہائیوں کے ساتھی ہیں، جی ہاں میرے اس دوست کا نام پروفیسر ڈاکٹر نذیرتبسم ہے، میں جب بھی پہاڑوں کے سفر پر نکلتا ہوں تو پہلا سفر بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے سو، ات،ناران،مری اور گلیات گواہ ہیں کہ تب سے اب تک بہت باقاعدگی سے ہر سال پہاڑوں کی صحبت میں گرم موسم سے چھپ کر کچھ لمحے گزارنے پہنچ جاتا رہا ہوں اب کچھ برسوں سے اس باقاعدگی میں کچھ کھنڈت یوں پڑی ہے کہ مجھے ہر سال تین چار مہینے ملک سے باہر گزارنے پڑتے ہیں، اب بھی، بھلے سے چند دن ہی کیوں نہ ہوں،ضرور پہاڑوں سے بات کرنے چلا جاتا ہوں، دوست ِ عزیز سید عاقل شاہ کی کالام میں کچھ وقت گزارنے کی دعوت کئی برسوں سے التوا میں ہے، اس سال مری کی فضائیں بھی آواز دیتی رہیں مگر وبا کے دنوں میں گھر سے نکلنا بنتا نہیں تھا،اب جب وبا کی شدت نے قدرے سانس بحال کرنے کا موقع دیا ہے،اور باہر جانے کا بھی پروگرام نہیں بن رہا تو چند دن فراغت کے نکالے جاسکتے تھے، مگر کہاں جایا جائے، یہ بھی اسی طرح کا مسئلہ بن جاتا ہے جس طرح ہر صبح ہر گھر کا مسئلہ ہوتا ہے یعنی ’آج کیا پکایا جائے‘ اس مشکل کام کو آسان تر بنانے میں بہت ہی صاحب ِ مطالعہ دوست ِ مہربان کمانڈر خلیل الرحمن (سابق گورنر کے پی) نے بہت مدد اور محبت دی، اور میں اپنی فیملی کے ساتھ نتھیا گلی کی رومان پرور فضاؤں میں پہنچ گیا، لانبے،گھنے اور سرسبز و شاداب درختوں میں گھرے ہوئے پر سکون کاٹج میں گزارے ہوئے دن شاید ہی کبھی بھلائے جا سکیں، دلچسپ بات یہ ہوئے کہ میرے پاس فون کا جو کنکشن ہے اس کے سگنل وہاں نہیں تھے،ہر چند ابتسام نے ایک اور کنکشن کی سم خریدنے کا مشورہ بھی دیا مگر میں نے اسے غنیمت جانا اور بغیر فون کے ساری توجہ آٹھ ہزار دو سو سے بھی زیادہ بلندی پر واقع جنت ارضی نتھیا گلی کے حسن پر دی،کمانڈر خلیل الرحمن کے کاٹج کے سرسبز و شاداب لان،گھنے اونچے درخت،پھول تتلیاں اور صبحدم چھتوں پر اودھم مچاتے بندر پوری تفریح کا لطف دے رہے تھے،اس لئے کتابوں،لیپ ٹاپ ، کئی قسم کے قلم اور ڈائری والا بیگ جسے میں نے پشاور میں بند کیا تھا اسے واپس پشاور آ کر ہی کھولا۔ زمانوں بعدیہ میری پہلی طویل چھٹی تھی جس میں میں نے محض فطرت کی صناعیوں اور خوبصورتیوں کا مطالعہ کیا۔ ہر چندطے تو یہی ہوا تھا کہ اس دورا ن کما نڈر خلیل الرحمن بھی ایک دن کے لئے آ جائیں گے اور پھر پورا دن ہم ادب کے اطراف میں رہتے ہوئے گفتگو کریں کے کیونکہ ہماری کم و بیش ہر ماہ ہونے والی ملاقات میں وبا کے باعث پیدا ہونے والے تعطل کو اب کئی ماہ ہو گئے ہیں، مجھے ہمیشہ اس ملاقات کا بہت انتظار رہتا ہے کہ کمانڈر خلیل الرحمن اردو،پشتو ادب کے ساتھ ساتھ عالمی ادب کے وسیع مطالعہ کی وجہ سے گفتگو اور ملاقات یادگار اور شاندار ہو تی ہے لیکن ایسا نہ ہوسکا وہ ایبٹ آباد تک آئے بھی مگر انہیں ایک اہم مصروفیت کی بنا پر واپس اسلام آباد جانا پڑا حالانکہ یہ بھی طے تھا کہ ہم جب واپس ایبٹ آباد آئیں گے تو ایک نشست وہاں بھی ہو گی، میرا ارادہ بھی یہی تھا کہ ایک دن ایبٹ آباد ضرور گزاریں گے کیونکہ ہم نے ایبٹ آباد سے گزرتے ہوئے دوست عزیز قاضی جمیل (جو کہ ان دنوں ایبٹ آباد پولیس کے بڑے صاحب ہیں) کے ظہرانے کی بہ اصرار پیشکش کو بمشکل واپس ایبٹ آباد آنے تک مؤخر کر رکھا تھا۔ مگر ایک ہی دن میں دو دوستوں سے ملاقات کی خوشی سے محروم یوں رہا کہ بچوں نے نتھیا گلی سے واپسی کے لئے مری کا راؤٹ اختیار کرنے کا حکم صادر کردیا،جہاں ایک بار پھر مجھے پہلی پہلی بار والی مری کی سیر یاد آ گئی، میں پوسٹ آفس کی سیڑھیوں میں بیٹھ گیا اور بچوں کو کہہ دیا کہ آپ گھومیں اور دو چار گھنٹے واپس نہ آئیں، اچانک میری نظر کتاب میلہ کی بینر پر پڑی جو پوسٹ آفس کی سیڑھیاں چڑھ کر دائیں طرف لگا ہوا تھا، اور ہزاروں نئی پرانی کمیاب اور نایاب کتب باذوق پڑھنے والوں کا انتظار کر رہی تھیں۔ میں نے وہیں سے مری مال روڈ کیرونق میلہ کو دیکھا جہاں بلا شبہ سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں سیاح گھوم رہے تھے جب کہ کتاب میلہ کے احاظہ میں کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا ایک سیلز مین بیٹھا چائے پی رہا تھا۔میں نے بھرے مال روڈ اور خالی کتاب میلہ کی تصویریں بنائیں،مجھے علم ہے کہ مری کی سیر کی اپنے تقاضے ہو تے ہیں،سوشل میڈیا پر تصویریں شئیر کیں تو دوست عزیز ٖ فہیم صدیقی نے لکھا کہ ”مری کا حوالہ شغل میلے کا ہے کتاب میلے کا نہیں“، بدقسمتی سے یہی سچ تھا۔کہ میں بھی اتنے دن کتاب سے کٹا رہا تھا۔ البتہ واپس آ یا تو بہت سی کتابیں منتظر تھیں جن کا صرف ذکر ہی کر سکتا ہوں اسے کالمی رسید سمجھ لیں،ممتاز مؤرخ،نقاد، ماہر تعلیم،عالم دین، خطیب اور دانشور پروفیسر صاحبزادہ عبد الرسول (1930۔ 2019)کی شخصیت،علمی اور ادبی خدمات کے تذکرہ پر مشتمل معروف شاعر ادیب اور بلا تکان بہت کام کرنے والے پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی یہ ضخیم کتاب موصول ہوئی ہے، اس کے ساتھ ساتھ پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید کی ایک اور منفرد ضخیم کتاب عالمی شہرت یافتہ کمپئیر، دانشور اور شاعر ادیب ”عزیز ِ پاکستان طارق عزیز‘‘ بھی ملی ہے اس کتاب میں طارق عزیز کے شعری مجموعہ ”ہمزاد دا دکھ“ کالموں کا مجموعہ ”داستان“ اور سوانح عمری ”فت پاتھ سے پارلیمنٹ تک‘‘ پر سیر حاصل تبصرہ کے علاوہ طارق عزیز کی فلموں اور مختلف انٹرویوز،طارق عزیز شو میں پوچھے گئے سوالات اور ان کی رحلت پر لکھے گئے معروف کالم نگاروں کے کالم بھی شامل ہیں،مردان سے حضرت زبیر زبیر کی ادارات اور ڈاکٹر اسرار کی نگرانی میں شائع ہونے والے دو ماہی ”پاسون مردان“ ‘ کا تازہ شمارہ بھی آگیا ہے۔ کالم کے اختتام پر تھا کہ شکیل نایاب گھر آیاوہ ڈاکٹر اظہارر اللہ اظہار کی کتاب ”غزل کروٹ بدلتی ہے“ لے کر آیاتھا مگر مجھے کام میں مصروف دے کر کتاب دے کر کچھ کہے،سنے اوربیٹھے بغیر لوٹ گیا۔ شکیل نایاب کی تعلیمی مصروفیت کی وجہ سے کوئی پانچ چھے ما ہ بعد ملاقات ہو ئی ( جو سچ پوچھو تومیں اس کی شکل بھی بھول گیا تھا LOL)۔ اسی طرح سونان اظہر کی ادارت میں لاہور سے باقاعدہ شائع ہونے والا ماہنامہ تخلیق بھی مل گیا ہے، جس پر تفصیلی بات بشرط زندگی ان شا اللہ آنے والے ادب سرائے میں ہو گی۔ ماہنامہ تخلیق کے حصہ ّ غزل سے عباس تابش کے ایک شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گا
ہم نے کیا کیا نہ پگھلتے ہوئے پتھر دیکھے
شاہزادی ترے انکار سے کیا ہو تا ہے

younus khayyal

About Author

1 Comment

  1. یوسف خالد

    ستمبر 24, 2020

    بہت عمدہ تحریر ہے بہت پر لطف

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی