کالم

سٹیفن ہاکنگ بالا دست طبقے کا ایک اور کامیاب تھیٹر : سعیدسادھو

سٹیفن چاچا کسی تعارف کا محتاج نہیں کارپوریٹ دنیا میں لبرل اسے اپنا فکری باپ مانتے ہیں اور بلاشبہ اس نے بے انتہا کام کیا ہے جو کہ بڑا معنی خیز سبق آموز اور باقی بھی بہت کچھ ہے۔
بالا دست طبقے کے مطابق اس زمین پر رہنے کا حق صرف اسی کو ہے جو اُس طبقے سے تعلق رکھتا ہے یا اس کی ترقی میں ممدومعاون ہو
ان کے نزدیک ان دنوں زمینی آبادی کا بڑھنا خطرناک ہے جو زمینی وسائل کا بے طرح استعمال کر رہی ہے اور کوئی تعمیری کام(ان کے لئے) نہیں کر رہی۔
ہر خطے کا بالا دست طبقہ کچھ چنیدہ افراد کو مخصوص مقام دلوا کر اپنی مرضی کا کام نکلواتا ہے
اور وہی افراد بالا دست طبقے کے پرچارک کا کام سر انجام دیتے ہیں۔
ٹیکنالوجی پہلی مرتبہ مہنگی بنتی ہے اس کے بعد وہ نہایت مناسب قیمت میں تیار ہونے لگتی ہے۔لیکن دولت کے سمٹاؤ کی خاطر اسے مہنگا انمول رکھنے کے لئے اس میں قطرہ قطرہ اپ گریڈیشن کی جاتی ہے
موبائلز کی مثال بہت مناسب ہے
ہم بچپن میں سورج کی روشنی سے چارج شدہ کیلکولیٹر استعمال کرتے تھے ابھی تک اسے موبائل میں عام کیوں نہیں کیا جا سکا
ظاہر سی بات ہے اس سے بجلی چارجر اور بیٹریوں کی انڈسٹری ٹھہراؤ کا شکار ہو جائے گی۔
دو میگا پکسل یا سولہ میگا پکسل کے کیمرے میں کس قدر قیمت کا تفاوت ہو سکتا ہے لیکن دو چار پانچ آٹھ بارہ اور آگے تک کے پکسل کے لئے علاحدہ علاحدہ قیمتیں معین ہیں یہی حال انٹرنل میمری یا کارڈ میں ہے جس میں کس قدر۔کاربن۔یا کوئی اور میٹیریل استعمال ہو جاتا ہو گا
اسی طرح زمینی گولے کے بہت سے مسائل ہیں
کارپوریٹ طبقہ جو اپنے آپ کو ایلومینائیٹ بھی کہلواتا ہے کے نزدیک دنیا کی ترقی فقط سائنسی ایجادات میں ہے
سٹیفن ہاکنگ کے مطابق دنیا میں سائنسی علم کے علاوہ کوئی علم ہے ہی نہیں
بالکل کارپوریٹ طبقے کی طرح سماجی معاشی مسائل ان کے نزدیک کوئی معنی ہی نہیں رکھتے۔ گویا ان کے نزدیک کسی طوائف کا روزانہ پیٹ کی خاطر بکنا یا اپنے رحم۔میں بچہ ٹھہروا کر ساتویں ماہ ٹرانسپلانٹ(سائنسی) مافیا کے آگے بیچنا کوئی زمینی مسئلہ نہیں
سو سٹیفن جی کے نزدیک فلسفہ ایک بوگس اور فضول علم ہے کیونکہ اس کی ضربیں سیدھے سبھاؤ بالادست طبقے پر پڑتی ہیں جب کہ سائنس اور میکانیات ایک ایسا علم ہے جو سراسر بالادست طبقے کے حق میں ہے
اگر ٹیکنالوجی بنائے گا تو سو تولہ لوہا ہزاروں کی دولت سمیٹ پائے گا
اگر میزائل جہاز بنائے گا تو زمینی گولے کے وافر وسائل استعمال کرنے والے طبقے کے محو ہونے کا امکان بڑھ جائے گا
اگر چاند تاروں کو مسخر کرے گا اور کوئی بڑا خلایی اسٹیشن بنانے میں کامیاب ہو گا
تو بالا دست طبقے کو اطمینان سے اوپر رہنے کے لیے ایک سٹیٹ میسر ہو گی زمین کو جیل بنا کر اپنے من پسند قیدیوں کو خلائی ریاست میں بیگار پر لے جایا جا سکے گا
گویا دنیا کو کون سی ایسی ٹیکنالوجی ہے جو ایلومیناییٹس اپنے لیے استعمال نہیں کر رہے۔
نیچے موجود سوال اور اس پر سٹیفن ہاکنگ کا جواب واضح ہے کہ اتنا بڑا سائنس دان خود ایک غیر سائنسی سوال میں الجھا ہے کہ اگر میں بالادست طبقے کے تمام راز افشاء کر دوں تو روٹی کیسے کھاوں گا
میں قطعا اس کی سائنسی ایجادات یا تفکرات پہ طعنہ زن نہیں ہوں
وہ درست بھی ہوں گی غلط بھی اور مستحکم بھی میرا مسئلہ یہ ہے
کہ یہ کیسی سائنس ہے جو پیٹ کے ہاتھوں خود کشی کرتے انسانوں کی موجودگی میں چاند پر پہنچنے کی دوڑ میں ہانپ رہی ہے
یہ کون سی سائنس ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے نئی نئی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں
یہ کیسا علم ہے کہ ایک طرف انسان سیلابوں زلزلوں اور قحط کا شکار ہے تو دوسرے کونے میں مریخ پر جانے اور نبولوں کی کیمیائی حالت جاننے پر دولت خرچ کی جارہی ہے
اگر ہم زمین کو اپنا گھر سمجھتے ہیں(جو کہ میں سمجھتا ہوں ) تو یہ کیسے ممکن ہو گا کہ ایک گھر میں ایک بھائی کھانے کپڑے اور چھت سے ماورا زندگی بسر کرے اور دوجا عمرہ جاتی ، گاڑی جاتی اور اور مجرا جاتی عیاشی میں منہمک ہو
یہ معاملہ ہے اسٹءفن ہاکنگ کا بھی جس کے بارے انٹرنیشنل مافیا اس قدر کریز پھیلا چکا ہے کہ۔ہماری گفتگو میں اس کا ذکر ہونا فرض عین ہو کر رہ گیا ہے
میں دوبارہ۔یہ۔کہوں گا کہ مجھے اس کی سائنسی فکریات کے ہونے پہ اعتراض نہیں میں تو یہ کہتا ہوں کہ وہ اور اس کی فکریات ہر طبقے اور ہر انسان کے لیے برابر سود مند ہوں
ورنہ۔سائنس کو علم کہنا میرے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے
میں ایک پڑھے لکھے شخص بارے یہ گمان نہیں کر سکتا کہ وہ کسی چوک پر دو گھونسے کھا یا لگا رہا ہو گا
ایک پڑھے لکھے کی شخصیت کا لازمی جزو تہذیب ہو گی
وہ کسی کو تھپڑ نہیں جڑ سکتا قتل تو بہت گھناونی کیفیت ہے بد تہذیبی کی۔
لیکن پچھلی صدی میں تعلیمی ادارے استاد اور شاگرد اس قدر پیدا ہوئے کہ اس سے قبل ایسی کوئی مثال نہیں ملتی لیکن چونکہ علم کی مسند فلسفے سے ہٹ کے سائنس کے پاس آ چکی تھی اسی لیے دو جنگوں میں کروڑوں لوگ مارے گئے
اب اچھا تعلیم یافتہ وہی ہے جو چارٹرڈ اکاونٹنٹ بن۔کے دولت کے سمٹاؤ کا گر جانتا ہے
یا اچھا سائنسدان بن کر دور مار تک۔کا میزائل بنا رہا ہے
یا ایک کیمیائی یا جراثیمی بلاسٹ سے لاکھوں انسانوں اور اس کی صدیوں تک آنے والی نسلوں کو اپاہج کیے جا رہا ہے
یا آئی ٹی ایکسپرٹ بن کر لوگوں کے راز روپے کے بدلے بیچ رہا ہو
یا کچھ بھی
سائنس کے کرشمے بہت سے بچپن میں پڑھے تھے کچھ کرشمے وہ ہیں جو اس بالادست طبقے کے ”علم” نے ہمیں بخشے ہیں جس کا ایک مہرا
جناب سٹیفن ہاکنگ ہیں

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی