خالہ نے مجھے تین ہزار روپے دیتے ہوٸے بھلا کیا کہا تھا ایرپورٹ پر میرے ساتھ، بالکل ساتھ لگ کر کھڑی بیگم سے میں نے پوچھا اور ساتھ ہی اشارے سے کہا تھوڑا سا ہٹ کے تو بیگم نے کہا آپ کی فلاٸٹ سیدھی شہر ِ رسول جا رہی ہے عصر آپ نے نبیﷺ کے حرم میں ادا کرنی ہے میں کیوں پیچھے ہٹ کے کھڑی ہوں؟ اچھا بتاو تو کیوں اس نے تین ہزار روپے دیے تھے بیگم جو اتنے شور میں صرف میری باتیں سُن رہی تھی پوچھنے لگی آپ بتاو یہ مدینے کے کبوتروں کی چوگ کے لیے دیے تھے بیگم کی آنکھوں میں آنسو آگٸے تین ہزار روپے نکال کر مجھے دیتے ہوٸے کہا کہ مدینے کے کبوتروں کو دانہ ڈالتے ہوٸے انہیں ضرور کہنا یہ لبنیٰ کی طرف سے ہیں۔نظریں فلاٸٹ شیڈول سے ہٹیں تو لوگ اپنے بیگ سنبھالے لاونج کی طرف بڑھ رہے تھے ان میں میں کسی کو نہیں جانتا تھا مگر محبت کا ایسا رشتہ تھا کہ ہم سب ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے ہم مدینہ کس وقت پہنچیں گے ایر پورٹ نبی پاک کے حرم سے کتنا دور ہے ہوٹل کس طرف ہے کسی نے ازخود کہا دو یا تین منٹ۔فلاٸٹ کتنا ٹاٸم لے گی یہ کتنے گھنٹوں کی پرواز ہے کیا مسقط ایرپورٹ پر زیادہ رکنے پڑے گا مدینتہ الرسول میں کس وقت جہاز لینڈ کرے گا۔
یہ کیسا سفر تھا کہ میں سب کچھ بھول گیا کہ سامان کہاں ہے اور فلاٸٹ میں ابھی کتنا وقت ہے کہ یکایک مجھے بیگم کا خیال آیا تو واپس پلٹا بیگم مجھے ایک رشک ایک حسرت اور محبت بھرے حسد سے لگاتار دیکھے جا رہی تھی۔امیگریشن والے اب مجھے باہر نہیں جانے دینے رہے تھے کہ بیگم تیزی سے رش کو چیرتے ہوٸے دروازے کے قریب آٸی جہاں امیگریش والا ہمارے دوست سجاد بخاری کے کاغذ چیک کر رہا تھا اس کو مصروف دیکھ کر بولی مدینے کے کبوتروں کو دانہ ڈالتے ہوٸے یہ کہنا بھول نہ جانا کہ یہ لبنیٰ کی طرف سے ہیں اور آتے جاتے دانہ ڈالنا اور ساتھ ہی میرے گلے میں ایک اور گلاب کے پھولوں کا ہار ڈال دیا گیلے گلاب کے پھولوں کی گاڑھی خوشبو نے مجھے سرشار کر دیا۔
شام کے وقت مدینہ ایرپورٹ پر لینڈ کر کے ہم ہوٹل کی طرف گامزن تھے ک تھوڑی دیر میں اندھیرا پھیلنے سے پہلے شہر ِ نبی جگمگ کر اٹھا سڑکیں تھیں کہ روشنی کی قندیلوں کے بیچوں بیچ کوٸی راستہ تھا کوٸی مستی تھی کہ میں جس سے بھرا پڑا تھا دنیا و مافیہا سے بے نیاز کہ اچانک ہمارے معلم نے بتایا ہم جنت البقیع کے پاس سے گزر رہے ہیں۔ یہ داٸیں جانب دیکھیں یہ جنت البقیع ہے میں نے آنکھیں کھڑکی کے ساتھ لگاٸیں ایک اندھیرا تھا جس میں کوٸی چیز واضح نظر نہیں آ رہی تھی بس ایک اشارے پہ رکی تو وہ دوبارہ گویا ہوا یہ ثقیفہ بنی ساعدہ ہے اندھیرے میں ایک گہرے سبز رنگ کا باغ روشنیوں کے درمیان بہت واضح نظر آ رہا تھا۔ اشارہ کھلا تو سامنے ہمارا ہوٹل تھا جس ہوٹل کے سامنے لگژری بس رکی وہاں سے مسجد نبویﷺ کی دیواریں اور گنبد بالکل نزدیک تھے کیسی خوش نصیبی تھی ایک گلی کا موڑ مڑتے ہی وہ آستان سامنے تھے جہاں سب، کیا فقیر کیا امیر، کیا جاہ و حشم والے کیا گلیوں کے عام لوگ، کیا گناہ گار کیا جبّہ و دستار والے، کیا محکوم کیا حاکم، کیا گدا اور کیا بادشاہ سب ایک جیسے ہو جاتے ہیں سر جھکاٸے ہوٸے ندامت سے بھرے ہوٸے شرم میں ڈوبے ہوٸے وہ آستان جہاں سر جھکا کے آنا ہے سر جھکا کے بیٹھنا ہے جہاں دنیاوی گفتگو ہونا ناممکن ہے جہاں ایک اشکوں کی تار کا سلسلہ ہے اگر اس تار سے جڑنا ہے تو حاضری قبول ہونی ہے۔ اس دربار پر اشکوں کے نذرانے چڑھتے اور قبول ہوتے ہیں۔وہ الگ اور منفرد آستان ایک گلی کے موڑ پر ہو تو خود پر رشک آنا تو بنتا ہے۔ہوٹل کی تیسری منزل پر ہمیں جو کمرہ ملا اس کا پردہ ہٹا کر دیکھا تو نیچے وہی ثقیفہ بنی ساعدہ کا باغ تھا۔
اگلے دن میں جنت البقیع کی زیارت کے لیے تیار ہوا تو ایک دوست رضا کا پتہ چلا کہ وہ بھی وہاں جا رہا ہے رضا سے لاہور میں میری ملاقات ہو چکی تھی ہم دونوں حج ٹور آپریٹر کے دفتر میں ملے تھے ابھی اس دفتر کا کوٸی آدمی ملازم نہیں آیا تھا باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ وہ بھکّر کا رہنے والا ہے اور وہیں سے اتنا طویل سفر کر کے پہنچا تھا اسی دوران دفتر کے منتظم بھی آگٸے میں تو چند دن قبل حج کے واجبات کی اداٸیگی کر چکا تھا البتہ رضا کی دی ہوٸی رقم وہ گن رہے تھے اور رضا کے کاغذات کی نوک پلک اور ضروری معلومات درج کر رہا تھے کہ میں نے پوچھا کہ کتنے لوگوں کی درخواستیں جمع ہو گٸی ہیں اس نے کمپیوٹر سے رسید نکالی تو رضا کا بہترواں نمبر تھا میں نے رضا سے کہا چلو تم پر اسلام کے بہتر فرقے پورے ہو گٸے ہیں۔
جنت البقیع جانے کے لیے وہ تو تیار کھڑا تھا ہوٹل کے بغلی دروازے سے نکلے اور موڑ مڑا تو سامنے ایک چھوٹا سا احاطہ تھا یہی مدینے کے کبوتروں کا مسکن تھا مگر اس وقت وہاں ایک بھی کبوتر نہیں تھا۔تیز دھوپ سے بچنے کے لیے دو عربی بچے اسی احاطہ کے دوسری سمت فٹ پاتھ پہ کبوتروں کے دانوں کی تھیلیاں لیے بیٹھے تھے ان بچوں سے پوچھا کہ کبوتر کہاں ہیں ایک بچہ بولا نو دانہ نو کبوتر۔اس سے دو تھیلیاں لیں تو قیمت پوچھنے پر اس نے ”پنچی“ کہا اور اپنا ہاتھ کھول کر پانچ انگلیاں دکھاٸیں۔اسے معلوم ہو چکا تھا ہم پاکستانی ہیں اسی لے اس نے پنچی کہا تھا یعنی پانچ ریال۔ دانہ ڈالنے کی دیر تھی کہ کبوتر غول کے غول اترنے لگے آس پاس کے ہوٹلوں کے چھجوں سے اتر اتر کر اپنی چوگ لے رہے تھے میں ان کبوتروں کے درمیاں میں جا کر دانہ ڈالنے لگا ۔کبوتر تھے کہ مستی کے پیکر تھے خوبصورت ذرا بھرے بھرے سارے ایک جیسے، ایک جیسی دھاریوں والے، اپنی اداوں میں بے نیاز اپنی مرضی سے اڑنے والے، اپنی مرضی سے احاطے میں اترنے والے میرے نبی پاک کے کبوتر میرے نبی پاک کے شہر کے کبوتر۔ان کے پروں پر دو دھاریاں ہیں جب کبوتر اترتے ہیں تو نظر آتی ہیں اڑتے ہیں تو نظر نہیں آتیں۔وہ پرے کے پرے اترتے چلے آ رہے تھے ان کو غور سے دیکھا ان کے پنجے نوزایدہ بچوں جیسے تھے گلاب کی پنکھڑی جیسے اور گردن پر جیسے مسکارا کیا گیا تھا۔
رضا نے مجھے یاد دلایا جنت البقیع زیادہ دیر کے لیے نہیں کھلتا عصر کے وقت کھلتا ہے اور کچھ دیر کے بعد بند کر دیا جاتا ہے۔جنت القیع کا گیٹ مسجد نبوی سے متصل ہے بالکل ساتھ۔حضور کے زمانے میں یہ ذرا دور تھا اب مسجد کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔اس کے گیٹ سے داخل ہوتے ہی تھوڑی سی چڑھاٸی ہے جہاں از خود رفتار دھیمی پڑ جاتی ہے جیسے ارشاد ہو رہا ہو آہستہ چلو آہستہ، رک رک کر تھم تھم کر یہاں دنیا جہان کی سب سے برگزیدہ ہستیاں آرام فرما ہیں یہاں حضور کی بیٹیاں آسودہ خاک ہیں ان کے بڑے بیٹے اپنی ماں کے ساتھ آرام فرما رہے ہیں۔سب سے پہلی قبر بی بی فاطمہ کی ہے جن کے بارے میں اقبال نے کہا ہے
رشتہ آئینِ حق زنجیر ِ پاست
(آئین حق سے تعلق میرے پیر کی زنجیر ہے)
پاس ِ فرمان ِ جناب مصطفیٰ است
(اور مجھے رسول ص کے فرمان کا پاس ہے)
ورنہ گردِ تربتش گردیدمی
(ورنہ مین تربت زہراء کے گرد طواف کرتا)
سجدہا بر خاک اُو پا شیدمی
(اور اس کی تربت کی خاک پر سجدے کرتا)
قبر پاک ہے کہ بالکل ایک بے نام سا نشان ہے اس رستے سے جہاں پہ ہم چلتے ہوٸے یہ زیارت گاہ دیکھ رہے تھے وہاں سے وہ دور بھی نہیں تھی تیس چالیس میٹر کے فاصلے پر ہو گی مگر ایک نشان کے علاوہ کچھ نظر نہیں آ رہا تھا یہ نبی کی بیٹی کی قبر ہے اور جنت البقیع کی پہلی قبر۔شاید حضور کی رحلت کے بعد سب سے پہلے بی بی کا وصال ہوا ہو ان کے ساتھ ہی ان کے صاحب زادے امام حسن،زین العابدین، امام باقر اور جعفر صادق کی قبریں ہیں درمیان سے تھوڑا سا آگے حضور کے چچا حضرت عباس کی قبر ہے اور ایک طرف حضور کی تینوں صاحب زادیاں سیدہ زینب سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثوم محوِ استراحت ہیں یہاں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا یا فاتحہ خوانی منع ہے جب میں نے دعا کے لے ہاتھ اٹھاٸے تو شرطے اور رضا نے بھی بیک وقت کہا یہاں دعا مانگنے کی اجازت نہیں ہے مگر دعاٸیں تھیں کہ سینہ چیر کر باہر نکلنے کو بے تاب تھیں۔دو قدم آگے حضرت علی کے بھاٸی عقیل بن ابو طالب آرام فرما ہیں۔گرمی انتہا کی تھی میں گھر سے ایک چھتری لایا تھا اور مسجد کے باب السلام کے سامنے پڑے یخ کولرز سے آب زم زم کی ایک بوتل بھر کر لایا تھا میں دعاٸیں بھی مانگ رہا تھا اور نبی کریم کے قرابت داروں، بیٹیوں اور بیٹے کی قبروں پر نظر جیسے جما کر گزر رہا تھا حضرت عقیل کی قبر اس گرمی میں جیسے تپتی ہوٸی لگ رہی تھی میں نے رضا سے پوچھا جیسے ہم پاکستان میں اپنے عزیزوں کی قبروں پر پانی کا چھڑکاو کر لیتے ہیں ایسے ہی حضرت علی کے بھاٸی اور نبی کریم کے کزن کی قبر یہ آب ِ زم زم چھڑک لوں رضا نے کہا شرطے کی نظر پڑ گٸی تو سیدھا جیل بھیج دیں گے میں نے حیرت سے پوچھا اتنی سختی اور ساتھ ہتھیلی میں پانی بھر ان کی قبر پر ایسے چھڑکاو کیا جیسے ماشکی کرتے ہیں۔میں بھی تو قسمت سے ان کا ماشکی بن گیا تھا بالکل ویسے ہی شرطے اور رضا کی پلک جھپکنے سے پہلے تپتی قبر کو ٹھنڈا ٹھار آب زم زم پوری طرح تر کر چکا تھا اور دیکھتے دیکھتے سارا پانی ایک لمحے میں اس پاک مٹی میں جذب بھی ہو چکا تھا۔
بنات نبیﷺ کے احاطے کے ساتھ نو امہات المومنین کی قبور ہیں جن میں ترتیب وار حضرت عاٸشہ، حضرت حفصہ، حضرت سودہ،حضرت زینب، حضرت ام سلمہ،حضرت ام حبیبہ، حضرت زینب بنت جحش، حضرت صفیہ اور حضرت ماریہ کی ہیں۔حضرت خدیجہ جنت الماوی مکہ میں مدفون ہیں ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ ایک اور ام المومنین کونسی ہیں جو یہاں مدفون نہیں ہیں کہ ہمارے معلم کے بڑے بیٹے بھی وہاں پہنچ گٸے۔معلوم ہوا کہ پہلی ام المومنین حضرت خدیجہ اور آخری ام المومنین دونوں مکہ میں مدفون ہیں۔یہ کیسی دنیا یہاں آباد ہے اک ایک قدم پر بڑی ہستی ایک ایک احاطہ نبی کریم کے قرابت داروں اور ان کے اصحاب سے بھرا پڑا ہے نظر کسی اور جانب اٹھتی ہی نہیں درمیان میں ایک راستہ ہے جس پر بھاری دل اور بوجھل قدموں سے چلنا ہے نہ کہیں رکنے کا یارا نہ ایک قدم تک اٹھانے کا حوصلہ۔سہ پہر تھی کہ شب قدر جب میرے رب کی طرف سے ساری رات ہزارہا فرشتے اترتے ہیں یہ کیسی گھڑی ہے۔
بی بی فاطمہ کی قبر سے کچھ فاصلے پر ام سلمہ مدفون ہیں جن کی درخواست پر بی بی پاک کی رخصتی ہوٸی تھی اور وہی حضرت علی اور حضرت عقیل کی خواہش پر دوسری امہات المومنین کی سفارش لے کر نبی کریمﷺ کے پاس بی بی کی رخصتی کے لیے حاضر ہوٸیں تھیں انہیں حضرت عقیل کی قبر پر مجھے آب زم زم چھڑکنے کی سعادت حاصل ہوٸی تھی۔
سبطین نے رستے کی انتہاٸی باٸیں جانب ایک احاطے کی طرف اشارہ کر کے بتایا ہی تھا کہ وہ نبی کریم کی پھوپھیوں حضرت عاتکہ ،حضرت صفیہ اور علی کرم اللہ وجہ کی امی پاک فاطمہ بنت اسد کے مدفن ہیں کہ شرطے کے اشارے کے ساتھ ہی واپسی شروع ہو گٸی ابھی آگے بہت ساری زیارت گاہیں تھیں جن کی زیارت گویا فرض تھی۔واپسی پر نبی پاک کے حرم سے ہوتے ہوٸے اور درود پڑھتے ہوٸے باب السلام سے نکل کر سیدھا کبوتروں کے احاطے میں پہنچا ان کو چوگ ڈالی کبوتر ہوٹل بیت العتیق اور ساتھ کی بلڈنگوں کے چھجوں سے غول در غول اترنے لگے میں ان کے نزدیک پہنچا اور چوگ بکھیرتے ہوٸے مستی کے عالم میں کہا پتہ ہے کسی نے مجھے لاہور ایرپورٹ پر آپ کی چوگ کے لیے تین ہزار روپے دیے تھے۔