کالم

بخیہ ادھیڑ ۔۔۔ کالم : سعید اشعر

سعید اشعر
 سعید اشعر
۔۔۔۔۔۔  بیگار
اس بار جب میں ایک ماہ کی سالانہ چھٹی گزارنے پاکستان گیا تو مجھے لگا کہ میری بیوی اکیلے صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے گھر کے مختلف کاموں میں جٹ جاتی ہے۔ مختلف اوقات میں بچے سکول اور کالج جاتے ہیں۔انھیں اس کے مطابق جگاتی ہے ان کے بیگ اور لنچ باکس تیار کرتی ہے۔ ہر ایک کی پسند کا ناشتہ بنا کے اسے اس کی باری پر ناشتہ کروا کے رخصت کرتی ہے۔ پھر ناشتے کے برتن دھونے کے ساتھ ساتھ میرے جاگنے کا انتظار کرتی ہے۔ میں کلی کر کے فارغ ہوتا ہوں تو میرے لیے نئے سرے سے ناشتہ تیار کرتی ہے۔ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد سب کے بستر جھاڑتی، سرہانے درست کرتی اور اوڑھنے کی سب چادروں کو سمیٹنا شروع کرتی ہے۔ وہاں سے فراغت پا کر کمروں کا جھاڑو پوچا اس کا منتظر ہوتا ہے۔ تین کمرے، ڈرائنگ روم، کچن اور سٹنگ لاؤنج اچھا خاصا ایریا ہے۔ پھر باہر برآمدے میں بکھری ہوئی جوتیاں سلیقے سے رکھتی ہے۔ ذرا ٹھہریے اس سیشن کا ایک ضروری کام تو ابھی تک باقی ہے۔ اس کو مکمل کیے بغیر کیسے سکون سے بیٹھا جا سکتا ہے۔ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ جی ہاں۔ واش رومز کی صفائی۔ لو جی یہ کام تو آسانی سے ہو گیا۔
اب وہ کچھ دیر کے لیے کہیں بیٹھ کر اپنا سانس درست کرتی ہے۔ میرے ذہن میں کئی طرح کے خیال رش کرتے ہیں۔ کیا یہ میرا گھر ہے۔ میں نے تو اسے کچھ پیسوں کی مدد سے صرف بنوایا ہے۔ اس کے علاوہ تو میں نے اس کے لیے کچھ نہیں کیا۔ جب کہ میری بیوی کا ہر روز اسے بنانے اور سنوانے میں پسینہ ٹپکتا ہے۔ آخر اسے ملتا کیا ہے۔ آج یہ گھر میرے نام ہے۔ کل یہ میری اولاد کے نام ہو جائے گا۔ اس دوران اگر ہمارا جھگڑا یا اختلاف ہو جاتا ہے تو اسے ایک لمحہ میں یہ گھر چھوڑنا پڑے گا۔
پھر میرے ذہن میں ایک اور خیال انگڑائی لیتا ہے۔ اسے اتنی جان مارنے کے کیا ضرورت ہے۔ کوئی کام والی خالہ کیوں نہیں رکھ لیتی۔ وہ بہت سارے کام کر سکتی ہے۔ کچھ کاموں میں اس کا ہاتھ بٹا سکتی ہے۔ بجائے اس سے پوچھتا خود ہی جواز تلاش کرتا ہوں۔ ممکن ہے
اول: اسے لگتا ہو کام والی خالہ صفائی کا پوری طرح خیال نہیں رکھتی۔ اس طرح ایک کراہت کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کی بیماریاں پھیلنے کا خدشہ بھی برقرار رہتا ہے۔ کام والی خالہ کو کئی گھروں کا کام کرنا ہوتا ہے اس کی بھی مجبوری ہے۔ اس لیے جلدی میں کوئی بھی کام اچھے طریقے سے نہیں کر پاتی۔
دوم: آج کل ایسا دور چل رہا ہے کہ کسی پر بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اکثر سنتے ہیں کہ کسی گھر میں ہونے والی واردات میں اس گھر کے ملازمین بھی برابر کے شریکِ کار تھے۔ کیوں کہ انھیں پتہ ہوتا ہے کہ گھر کے مالک کی مالی حیثیت کیا ہے۔ قیمتی سامان، کرنسی اور زیورات کس کمرے میں محفوظ ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ گھر کے افراد کے معمولات ان کی نظر میں ہوتے ہیں۔ دو تین روز پہلے کی نیوز ہیں کہ پنجاب میں دو مختلف گھروں میں کام کرنے والی خواتین نے گھر کو لوٹنے کے چکر میں گھر کی مالکن کو ہلاک کر دیا
سوم: بچت کا پہلو ہو۔ جتنے پیسے کسی کام والی خالہ کو دینے ہیں ان سے گھر میں کوئی ضرورت کی چیز لائی جا سکتی ہے۔ کسی بچے کو نئے کپڑے یا چپل کی حاجت ہے تو وہ پوری ہو سکتی ہے۔ ویسے بھی مہنگائی کا زمانہ ہے گھر کے روزمرہ خرچے ہی پورے نہیں ہوتے۔ بجلی اور گیس کے بلوں نے گھر کے بجٹ کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ اشیاءِ خورد و نوش کی قیمتوں کو بھی کہیں قرار نہیں۔ مسلسل بلندی کی طرف لپک رہی ہیں
اتنے میں باہر کے دروازے کی گھنٹی بجتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کی دوسری شفٹ شروع ہو جاتی ہے۔ چھوٹا بیٹا دروازے پر ہے۔ اس کا استقبال کرتی ہے اور بیگ اٹھا کے اندر لاتی ہے۔ اس کے کپڑے بدلنے کے بعد کچن میں پہنچ جاتی ہے۔ روٹیاں بننے کا عمل شروع ہو جاتا ہے وقفے وقفے سے دوسرے بچے بھی پہنچ آ جاتے ہیں۔ تب تک سب کے حصے کی چپاتیاں تیار ہو جاتی ہیں۔ وہ سب کو ایک ایک کرکے دسترخوان پر بٹھاتی ہے۔
پھر کسی بچی یا بچے کو ساتھ لے کر بازار سے ضروری اشیاء خرید کر بھی لائے گی۔ تھوڑی دیر کے بعد رات کا کھانا بنانے کی وہی ریاضت اور برتن دھونے کی مشقت۔ رات ایک بجے کے قریب وہ بستر پر گرتی ہے۔ اتوار کے دن سب کے لیے یومِ تعطیل ہے لیکن اس کے لیے آج مشقت دگنی ہو گی۔ کیوں کہ ہفتہ بھر کے اکٹھے کیے ہوئے میلے کپڑے بھی تو اسی نے دھو کر پریس کرنے ہیں۔
میں بڑی باریک بینی سے ان معمولات کا جائزہ لیتا رہا۔ پھر ایک دن میں نے بڑی بچیوں کو پاس بلا کے کہا۔
"آپ لوگوں نے کبھی نوٹ کیا کہ آپ کی ماں بلاناغہ روزانہ صبح سے لے کر رات گئے تک کام میں مصروف رہتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ بیگار میں پکڑی کوئی عورت ہے۔ ٹھیک ہے آپ لوگوں کو کالج جانا ہوتا ہے۔ اسائنمنٹ کرنے ہوتے ہیں۔ آپ کے پاس بھی وقت نہیں ہوتا۔ لیکن تھوڑی سی کوشش اور توجہ سے اس کے لیے بہت ساری آسانیاں پیدا کی سکتی ہیں”
پھر میں نے ان کو کچھ تجاویز دیں۔ یہ لسٹ مکمل نہیں پڑھنے والے اس میں کمی بیشی کر سکتے ہیں
برآمدے میں اپنے اپنے جوتے سلیقے سے رکھیں
صبح بستر کو جھاڑ لیں۔ سراہانے سلیقے سے رکھ دیں
کھانے کے وقت دسترخوان بچھا کر پانی کا جگ اور برتن رکھ سجا دیں۔
کھانا کھانے کے برتن اٹھا لیں اور دسترخوان صاف کردیں۔
اپنے اہنے کمرے کو صاف کر لیں۔
باری باری برتن دھو لیں۔
ہفتے میں باری باری روٹی اور سالن بنا لیا کریں۔
اتوار والے دن ماں کو کچن سے چھٹی دیں اور مل کر کوئی اسپیشل چیز بنائیں۔
بھیگے کپڑے تار پر پھیلا دیں۔
چٹھی والے دن ناشتہ خود بنائیں۔
وغیرہ وغیرہ وغیرہ
بچیوں نے میری بات پر آمین کی۔ میں اب بھی کبھی کبھی ٹیلیفون کرکے یہ باتیں ان کو یاد کرواتا ہوں۔
آپ سب بھی چاہیں تو اس رخ سے اپنے گھر کا جائزہ لے لیں۔ اگر کوئی اس سے ملتی جلتی صورتِ حال ہے تو کوئی حرج نہیں کہ نظرِ ثانی کی جائے۔

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی