کالم

بخیہ ادھیڑ… کالم : سعید اشعر

سعید اشعر
سعید اشعر
 چونکہ ہم ایک روایت پسند معاشرے کا حصہ ہیں اس لیے بعض اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی ہم اپنے آپ کو ایک ایسے حصار کے اندر بند رکھنا چاہتے ہیں جس کے بارے میں ہمارے پاس چند جذباتی جملوں کے علاوہ کوئی دلیل موجود نہیں ہوتی۔ ہم فقرے بازی، اختیار، اظہار کے مواقع، پیروکاروں، عقیدتمندوں، حمایتیوں اور غیر متعلقہ ذرائع کو استعمال کر کے دوسروں کی دلیلوں کو غیرموثر کرنے کی مساعی میں مصروف رہتے ہیں۔ ہمارے پاس سب سے بڑا ہتھیار شعر کا ہے۔ جہاں کوئی جواب نہ بن پائے تو اقبال کے نام پر کوئی شعر پیش کر دیں۔ کسی بزرگ کا کوئی واقعہ سنا دیں۔ اور سب سے بڑی بات، اچھا خاصا ایک معقول آدمی بھی بعض اوقات کہتا ہوا دیکھا گیا ہے کہ آسمان سے چار کتابیں اتری ہیں اور پانچواں ڈنڈا۔ اگر آپ کسی کے ماتحت، محتاج یا زیرِبار ہیں تو آپ کا بات کرنے کا حق یکسر ختم ہو جاتا ہے۔ چاہے وہ کتنی بھی معقول کیوں نہ ہو۔ بس آپ جی ہاں کرتے رہیں چاہے سامنے والا کیسی ہی لایعنی بات کر رہا ہو۔ یہی سلوک عمر میں چھوٹے ہونے والے کے ساتھ بھی روا رکھا جاتا ہے۔
      مجھے اب تک یاد ہے جیسے یہ کل کی بات ہو۔ میں اس وقت آٹھویں جماعت میں تھا۔ میں، میرے چچا اور ان کے ماموں اکٹھے بیٹھے تھے۔ چچا کے ماموں اللہ کی شان بیان کر رہے تھے۔ ہم دونوں پوری توجہ سے ان کی بات سن رہے تھے۔
"اللہ کی شان دیکھیں سورج بھی شام کو مغرب کی طرف ڈوبتا ہے۔ اصل میں وہ کعبہ کو سجدہ ریز ہوتا ہے”
میری برداشت ختم ہو گئی۔ میں نے عرض کی۔
"ہم نے تو پڑھا ہے کہ زمین گول ہے۔ اور زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ چاچا جی سے پوچھ لیں۔ یہ سعودیہ میں رہ رہے ہیں۔ سورج کعبہ کے اوپر سے گزر جاتا ہے”
بعد میں چاچا جی نے مجھے کہا۔
"بزرگوں کا احترام کیا کرو۔ کیا ضرورت ہے ان سے سوال جواب کرنے کی”
اسی طرح ایک بار میں ایک سکول میں اے ڈبلیو آئی تھا۔ میں کتنی بھی اہم بات کرتا اس پر کوئی خاص دھیان نہ دیا جاتا۔ میں اگر علامہ اقبال یا غالب کا بھی شعر پڑھتا تو ساتھی اس طرح نظرانداز کرتے جیسے میں انھیں اپنا شعر سنا رہا ہوں۔ پھر اچانک میری ترقی ہو گئی۔ اب میں سائنس ٹیچر تھا۔ ملکی اور عالمی حالات پر میرے کیے ہوئے تجزیے توجہ سے سنے جانے لگے۔ میں اپنا شعر بھی سناتا تو بہت ساروں کو پسند آتا۔
میں شاید کافی دور نکل آیا ہوں واپس موضوع کی طرف آتا ہوں میں عرض کر رہا تھا کہ ہم ایک روایت پسند معاشرے کا حصہ ہیں جس کی حیثیت ایک قلعے کی طرح ہے۔ ہم اس سے باہر نہیں نکل سکتے جیسے اس قلعہ کو کسی دشمن فوج نے گھیرے میں لے رکھا ہو۔ اگر ہم نے اس قلعے کو چھوڑ دیا تو تباہ ہو جائیں گے۔ ہم اس بات کو عملی طریقے سے سمجھنے کے لیے ایک الماری کے پاس جاتے ہیں جسے ہم اپنی گھریلو لائبریری کہہ سکتے ہیں۔ الماری کے پٹ کھولیں تو ہلکی سی بساند آئے گی۔ جسے یار لوگ کتابوں کی خوشبو سمجھنے پر اصرار کرتے ہیں۔ آپ ذرا غیر جانبداری کے ساتھ ان پر نظر ڈالیں۔ الماری میں بہت ساری ایسی کتابیں ڈائجسٹ اور نصابی کتابیں ہوں گی جو اگلے سو سال تک ہمارے کسی کام کی نہیں۔ ہم ذرا سی ہمت کریں تو الماری کا بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔ یہ غیر ضروری کتابیں کسی کے کام آ سکتی ہیں۔ لیکن ہم کسی صورت ان کو الماری سے باہر نکالنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے۔ ہم تو وہ کتابیں بھی کسی کو مستعار دینے کے لیے تیار نہیں جو ہم پڑھ چکے ہیں اور شاید ہی دوبارہ کبھی ان کو کھول کر دیکھیں۔ حالانکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے بعد ان کتابوں کا کیا انجام ہونا ہے۔ لیکن کبھی نہ کبھی ایک آدھ مردِ قلندر پیدا ہو جاتا ہے۔ جو اس روایت کی بوسیدگی سے جان چھڑا لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ پچھلے دنوں میں ہزارہ کے نامور سپوت، اردو اور ہندکو کے لاجواب شاعر، محقق اور دانشور سلطان سکون کے پاس گیا۔ انھوں نے کمال ایثار کا مظاہرہ کیا ہوا تھا۔ اپنی زندگی کی تمام جمع پونجی جو کہ کتابوں کی صورت میں تھی۔ ماڈرن ایج کالج کے حوالے کر دی۔ کالج کے پرنسپل اور ہمارے دوست واحد سراج نے نہ صرف اس خزانے کو محفوظ کرنے کا مناسب بندوبست کیا بلکہ اس جگہ کو گوشہِ سکون کا نام دے کر ایک مستقل پہچان بنا دی۔ یہ ایک زندہ اور روشن مثال ہے۔ چونکہ یہ کتابوں کا معاملہ ہے اس لیے میں اپنی بات پر زیادہ اصرار نہیں کروں گا۔ کچھ لوگ اس کا تعلق افادگی کے بجائے عشق سے جوڑتے ہیں۔ عشق نہ بھی ہو تو کم از کم ایک نمائش کا سامان تو ہے ہی۔ چلیں کچن اور سٹور کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ بے شمار نئے پرانے ایسے برتن وہاں موجود ملیں گے جن کا کوئی استعمال نہیں۔ وقتاً فوقتاً جو ٹوٹتے رہتے ہیں یا دوسرے برتنوں کے ٹوٹنے کی وجہ بنتے ہیں۔ سوائے اس کے ان کا کوئی فائدہ نہیں کہ سال میں ایک آدھ بار کام والی خالہ ان کو دھو کر اپنے سگھڑ ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔ سٹور میں جائیں تو خالی بوتلیں، ڈبے اور کارٹون ملیں گے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ سارا کچھ ہم نے کون سے مشکل وقت کے لیے رکھا ہوا ہے جبکہ ان کی موجودگی سے ہم سارا سال مشکلات میں گھرے رہتے ہیں۔

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی