کالم

بخیہ ادھیڑ : سعید اشعر

اللہ بس باقی ہوس۔
مجھے لگتا ہے جلد ہی میرے دو چار دوست مجھ سے خفا ہونے والے ہیں۔ ان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ کیا ان کے بلاناغہ آنے والے شعری فتووں سے ابھی تک میں نے کسی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ بالکل بھی نہیں۔
آج کل شعر اور نقدِ شعر پر بات کرنا کتنا آسان ہو گیا ہے۔ صبح نو دس بجے کے درمیان اٹھیں۔ جمائی لیں۔ آنکھیں ملیں۔ ابھی واش روم نہیں جانا۔ پریشر کی وجہ سے جو پہلا خیال ذہن میں آتا ہے اسے فیس بک پر دو سطروں میں لپیٹ کر فتوٰی داغ دیں۔ واش روم سے واپس آتے آتے دس بارہ حمایتیے واہ واہ کر چکے ہوں۔ لو جی آج کا دن حلال ہو گیا۔ اگلے دن کا اللہ مالک ہے۔ اس کا بھی کوئی نہ کوئی بندوبست ہو جائے گا۔
میری بدقسمتی دیکھیں۔ ایک بار اسی طرح کے ایک فتوٰی پر میں اپنی رائے دینے کا گناہ کر بیٹھا۔ ملک الموت کی طرح، صاحبِ فتوٰی انباکس میں آ دھمکے۔
"یہ آپ نے کیا لکھ دیا۔ میرا سارا لکھا ہوا برباد کر دیا۔”
"میں نے جو دیکھا وہ لکھا۔ اگر آپ کو میرا کمنٹ پسند نہیں تو ڈیلیٹ کر دیں۔”
"میں نے اپنی پوسٹ ڈیلیٹ کر دی ہے۔ میری پوسٹ کا جواز ہی ختم کر دیا آپ نے۔”
"اگر ایسا کچھ تھا تو آپ پہلے میسیج کر دیتے تاکہ میں اپنی رائے کو روک کے رکھتا۔”
"میں کسی کے بولنے سے پہلے کیسے جان سکتا ہوں کہ وہ کیا کہنے والا ہے۔”
"رائے جب لی جائے گی تو ہر آدمی اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں اظہار کرتا ہے۔ ہر طرح کی رائے آنے کا امکان ہوتا ہے۔”
وہ بھی کیا زمانہ تھا۔ سادہ دل لوگ تھے۔ حالی کو شعر پر بات کرنے کے لیے۔ "مقدمہ شعر و شاعری” کی صورت میں باقاعدہ ایک کتاب دینی پڑی۔ حالی بھی کیا کرتے۔ اس زمانے میں نیم کے پتوں کا پانی ہفتوں پی پی کر لوگ اپنی کئی بیماریوں کا علاج کرتے تھے۔ آج کل تو ویکسین کا زمانہ ہے۔ ایک بار لگائیں اور سال ہا سال کے لیے بے فکر ہو جائیں۔
غزل کے نام پہ سب سے زیادہ رسوائی کلیم الدین احمد کے حصے میں آئی۔ اردو ادب میں جب تک غزل قائم ہے اس حوالے سے کلیم الدین احمد کا نام بھی زندہ رہے گا۔ یہ رسوائی انھیں کہیں راستے میں پڑی ہوئی نہیں ملی۔ بلکہ انھوں نے غزل کو "نیم وحشی صنف” ثابت کرنے کے لیے ایک بھرپور مقالہ لکھ کے حاصل کی۔ ان کا یہ مقالہ بھی خاصے کی ایک چیز ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا کو نہ جانے کیا سوجھی۔ "اردو شاعری کا مزاج” سمجھانے سے پہلے سینکڑوں کتابیں پڑھ ڈالیں۔ کیا ضرورت تھی تین چار سو صفحات لکھنے کے لیے برسوں خوار ہونے کی۔ ایک دن صبح صبح اٹھتے۔ بآوازِ بلند "یا ہو” کا نعرہ لگاتے اور دو جملوں میں اردو شاعری کے مزاج پر فتوٰی دے دیتے۔ پھر بھی اگر تسلی نہ ہوتی تو بھڑاس نکالنے کے لیے "اوراق” کا اداریہ تو موجود ہی تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں ان کے چاہنے والے ان کے اس فتوٰی کو تعویذ بنا کے گلے میں ڈال لیتے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ پروفیسر محمد ارشاد یا صوفی عبدالرشید شام کی محفلوں میں اگر کسی موضوع پر کوئی حتمی بات کرتے تو ہم سمجھ جاتے کہ کچھ دنوں بعد اس موضوع پر ایک وقیع مقالہ پڑھنے کو ملنے والا ہے۔ ایک بار ایوب ہوٹل پر پروفسر محمد ارشاد نے سیکولرازم کے حوالے سے کچھ چونکا دینے والی باتیں کیں۔ کچھ دنوں کے بعد "بزمِ لوح و قلم” کے اجلاس میں وہ اس موضوع پر خطبہ دے رہے تھے۔ معاملہ یہیں تک نہیں رہا دو تین ماہ بعد "فنون” کے شمارہ میں اس موضوع پر پروفیسر صاحب کا ایک بے مثال مقالہ شامل تھا۔
اللہ بس باقی ہوس۔
Aa

younus khayyal

About Author

2 Comments

  1. اعجاز حیدر

    مارچ 16, 2021

    بہت عمدہ

  2. گمنام

    مارچ 16, 2021

    خوبصورت، پرلطف اور زبردست

گمنام کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی