کالم

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی : ناصر علی سیّد

وقت کی ترتیب ہمارے بس میں نہیں بس جیسا حکم ہوتا ہے ہم بجا لاتے چلے جاتے ہیں،بہت سے ایسے کام ہیں جو ہم ایک مدت سے کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے لئے کوشش اور خواہش کے باوجودحالات ساز گار نہیں ہو پاتے، بہت سے ایسے امور بھی ہیں جنہیں خواہی نخواہی ہمیں چشم زدن میں انجام دینا ہوتا ہے اور اس سارے عمل میں بھی ہماری پہلے سے کی گئی کسی منصوبہ بندی کودخل نہیں ہو تا، میں اکثر کہتا ہوں اور مانتا بھی ہوں کہ ہم جس دنیا کو گزار رہے ہیں اس کے متوازی ایک اور نادیدہ دنیا بھی ہے جس سے کبھی کبھی ہماری فریکوئنسی از خود مل جاتی ہے،، جیسے بہت سے ہونے والے واقعات کی ایک جھلک یا اشارہ ہمیں خواب میں پہلے نظر آ جاتا ہیے اور بعد میں وہ واقعہ وقوع پزیر ہوتا ہے، یا کسی اپنے پیارے کے بارے سوچ رہے ہوتے ہیں اور وہ اچانک آ جاتا ہے،اور ہمارے ہاں تو اس موقع پر یہ بھی کہا جاتاہے کہ اچانک آنے والے شخص کی عمر زیادہ ہوتی ہیایک پاکستانی فلمی گیت (فلم بے وفا)میں اس کا اظہار یوں کیا ہے کہ
ابھی ڈھونڈ ہی رہی تھی تمہیں یہ نظر ہماری
کہ تم آ گئے اچانک بڑی عمر ہے تمہاری
اس لئے وقت کا ٹائم ٹیبل پہلے سے بنا ہوا ہے،ہم اسی کے مطابق اپنے سانس پورے کر رہے ہیں اس لئے ”اچھا دن گزرے“ اچھا وقت گزرے“ کی دعائیں دنیا کی ہر زبان میں بطور روزمرہ رائج ہیں، اور ان دعاؤں میں ایسی دعائیں اور خواہشیں بھی شامل ہو تی رہتی ہیں کہ
لمحہ کوئی ایسا بھی ہو ترتیبِ وقت میں
دستک کو ترا ہاتھ اٹھے ،میرا د ر نہ ہو
دستک سے مجھے نوّ ے کی دہائی میں انڈیاسے پشاور آنے والے ایک شاعر دوست طالب زیدی یاد آ رہے ہیں، انہیں میں حلقہ ارباب ذوق پشاور کے احباب سے ملانے حلقہ کے اجلاس میں بھی لایا تھا،جہاں انہوں نے اپنی کچھ مختصر نثری نظمیں سنائی تھیں اور نثری نظم کے مخالف بہت سے دوست اس صنف کی طاقت اور خوبصورتی کے قائل ہو گئے تھے۔ ان کی ایک نظم جو مجھے کچھ کچھ یاد ہے یوں بھی تھی،
” میں نے جب اپنا نیا مکان بنایا۔۔ تو یہ سوچ کر اس کے دروازے نہیں رکھے۔۔
کہ جب تو آئے گا، تو تجھے دستک کی زحمت اٹھانا پڑے گی
تو آیا اور یہ سوچ کر واپس لوٹ گیا کہ
جس گھر کے کواڑ ہی نہ ہوں، وہاں کون رہتا ہو گا “
تو یہ جو گزرتے وقت کا ا لھڑ گھوڑا ہے یہ گھوڑا ہماری کوششوں،خواشوں اور آرزؤوں سے بے نیاز بس اپنی دھن میں آگے ہی آ گے بڑھتا چلا جاتا ہے، کل غالب نے بھی یہی کہا تھا
رو میں ہے رخش ِ عمر کہا ں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
تو یہ بات طے ہے کہ وقت کی ترتیب ہمارے بس میں نہیں بس جیسا حکم ہوتا ہے ہم بجا لاتے چلے جاتے ہیں، میرؔ کا بھی یہی ماننا تھا کہ ”رات کو رو رو صبح کی یا دن کو جوں توں شام کیا“ سے زیادہ ترتیب وقت میں ہمارا عمل دخل نہیں ہے۔ کبھی کبھی یوں ہو تا ہے کہ مصروفیت سے سر کجھانے کی بھی فرصت نہیں ملتی، اور آرام کے چند لمحوں کے لئے ترس جاتے ہیں،اور کبھی کبھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے بیٹھے تنہائی کا کو ہ ِ بے ستوں کاٹتے رہتے ہیں، اور حالت یہ ہو جاتی ہے کہ کہنا پڑتا ہے
عجب طرح سے خالی یہ دن گزرتے ہیں
خبر بھی کوئی نہیں یارِبے خبر بھی نہیں
سماجی زندگی کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اگر علمی ادبی اور تعلیمی سرگرمیوں کے لئے بھی آپ کو چنا گیا ہو، تو پھر کئی بار آپ کو وقت کے پیچھے بھاگنا پڑتا ہے، کئی کئی دن خالی اور پھر ایک ہی دن میں کئی کئی کمٹ منٹس ہلکان کر کے رکھ دیتی ہیں، اس میں بھی عمل دخل آپ سے زیادہ اسی نادیدہ ٹائم ٹیبل کا ہوتا ہے، جسے آپ کو نبھانا پڑتا ہے، اور اگر ٹھیک سے نبھ جائے تو خیر ورنہ بسا اوقت الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں، اب کے بھی ایسا ہوا کہ کوئی دو ڈھائی ہفتے پہلے ایسا ہوا کہ دوست شکیل نایاب چند لمحوں کے لئے آئے اور دوست عزیز ڈاکٹر الیاس فاروقی کا پیغام دیا کہ آپ کے پاس چھبیس ستبر کی شام فارغ ہے، میں نے اثبات میں جواب دیا تو کہنے لگے کہ رہبر ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی دوسری سالانہ تقریب ہے، با مقصد تعلیم کے ذریعے ٹیلنٹد یتیم بچوں کی کفالت کا ذمہ اٹھانے والے ہمدرد اور غمگسار ڈاکٹر الیاس فاروقی کا یہ خواب اب اپنی تعبیر کے ہدف چھونے لگا ہے اور اسی حوالے سے یہ تقریب ہو رہی ہے،جلد ہی میں اور ڈاکٹر الیاس فاروقی آپ کے پاس آئیں گے اور تفصیل سے بات کریں گے، میں نے کہا جب جی چاہے آ جائیے ابھی تو بہت وقت ہے، وہ چلے گئے، اس دوران مجھے اسی تاریخ کی دو تین تقریبات کی دعوت بھی ملی مگر میں نے معذرت کر لی،پھر دن گزرتے گئے لیکن نہ شکیل نایاب لوٹے، نہ تقریب کا کوئی کارڈ آیا اور نہ ہی مجھے فون پر کوئی اطلاع ملی، میں کمٹ منٹ کی ڈوری سے بندھا رہا اور دل میں غالب کا یہ شعر بھی دہراتا رہا
وعدہ آنے کا وفا کیجے یہ کیا انداز ہے
تو نے کیوں سونپی ہے میرے گھر کی دربانی مجھے
رہبر فاؤنڈیشن کی تاریخ سے ایک دن قبل رات گئے اسلام آباد سے عزیز دوست زبیر الہی کی دعوت ملی کہ استاد حامد علی خان سمیت کچھ فنکاروں کے ساتھ کل ایک شام غزل کا اہتمام ہے اور بہت کم دوستوں کو بلایا ہے،آپ کا آنا لازمی ہے، میں نے کہا کہ کل ہی مجھے پشاور میں ایک تقریب میں جاناہے لیکن مجھے ابھی تک کنفرمیشن نہیں ملی کل صبح خود بات کروں گا، تقریب نہ ہوئی تو حاضر ہو جاؤں گا، میں نے صبح سویرے شکیل نایاب کو قدرے ناراضی والا وائس میسج بھیجا کہ آج چھبیس تاریخ ہے اور مجھے آپ نے کوئی اطلاع نہ دی، جس کا دیر تک کوئی جواب نہ آیا اور بیر الہی کا جب دوبارہ فون آ گیا تو میں نے کہہ دیا کہ آ جاؤں گا، میرے میسج کے کوئی دو گھنٹے بعد شکیل نایاب کا فون آ یا کہ جی وہ تقریب تو آج شام ہے، ”کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا“ میری پہلی ترجیح رہبر ایجوکیشن فاونڈیشن کی ہی تقریب تھی میں نے دوبارہ زبیر الہی کو فون کیا مگر اب وہ بھی نہیں مان رہے تھے کہنے لگے آپ اس تقریب میں جائیں، ہم دیر سے شروع کر دیں گے آپ بھلے سے ساڑھے نو دس تک آ جائیں،اب میرے پاس بجز اس کے کوئی چارہ نہ تھا کہ رہبر ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی تقریب میں بھی حاضری دوں اور پھر رات گئے اسلام آباد بھی جاؤں، سو پہلی تقریب ادھوری چھوڑنا پڑی سخت شرمندہ بھی تھا جب پروفیسر صبیح الدین نے مجھے بلاتے ہوئے کہا کہ آج کی تقریب کے صدر کو دعوت دیتا ہوں،بخدا مجھے اس کا بھی علم نہ تھا، ورنہ میں کہیں نہ جاتا میں نے کہا نا کہ وقت کی ترتیب ہمارے بس میں نہیں بس جیسا حکم ہوتا ہے ہم بجا لاتے چلے جاتے ہیں،سٹیج پر میری اکھڑی اکھڑی گفتگو کی تصویر اور تفسیر بہادر شاہ ظفرنے ڈیڑھ سو برس پہلے بیان کر دی ہے۔
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی