اقبالؒ نے توعقل ودل ونگاہ کا مرشداولیں عشق کو قرار دیتے ہوئے،ان تینوں کے درمیان کسی خاص تعلق کا اظہار بہت پہلے کر دیا تھا مگر جدید سائنس نے کہیں آج جا کر یہ ثابت کیا ہے کہ واقعی ان میں بہت گہرا تعلق ہے اور دل کے اندر بھی عقل کی طرح غوروفکر کرنے والا ایک عصبی نظام موجود ہے۔اس سے پہلے کی جدید سائنس میں دل کو محض خون پمپ کرنے والا ایک آلہ قرار دیا جاتا تھا بلکہ بہت سے میڈیکل سائنس کے طالب علم اور ماہرین جو اس نئی حقیقت سے واقف نہیں ہیں وہ اب ابھی اسے ایک گوشت کا لوتھڑا اور خون پمپ کرنے والا آلہ ہی کہیں گے مگر کیاکیا جائے کہ سائنس جوں جوں آگے بڑھتی جار ہی ہے ایسی حقیقتیں سامنے آرہی ہیں جنھیں چند سال پہلے ماننا ممکن نہ تھا اور اگر کوئی اس کا دعویٰ کرتا بھی کرتا تھا، اسے محض شاعری وفلسفہ کے مباحث قرار دے کر رد کر دیاجاتا تھا۔مثال کے طور پر ڈیڑھ سو سال پہلے،ہندوستان کی نوآبادت کا کوئی حکمران سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ دہلی سے محض آٹھ نو گھنٹے میں برمنگھم ائر پورٹ پر اتر جائے گا۔اسی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی مسلسل انسانی حیرتوں اور حاجتوں میں اضافہ کرتی جا رہی ہے۔سو سائنسی سہولیات کا عادی انسان،جذبے اور اپنائیت کے اس دور سے نکل آیا جب لوگوں کے پاس محبت کے اظہار کا بہت وقت ہوا کرتا تھا۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اب آپ کو ماننا پڑے گا کہ عقل صرف کھوپڑی میں نہیں ہوتی دل میں بھی ہوتی ہے۔اگر آپ اسے بطور مزاح نہ لیں تو دل کے پاس،پاسبانِ عقل کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ وہ اس وقت بھی ڈھرکتا اور زندہ رہتا ہے جب دل کی پیوند کاری کے دوران اس کا ناطہ اور رابطہ کھوپڑی کے دماغ سے کاٹ دیا جاتا ہے۔پھر جب نئے مریض کے سینے میں اسے لگایا جاتا ہے اوراس انسان کے دماغ سے اس کے روابط بحال کئے جاتے ہیں تو وہ وہاں بھی دھڑکنا شروع کر دیتا ہے۔اس لیے ڈاکٹر آرمر کی یہ بات سچ لگتی ہے کہ دل کے اعصابی نظام کے اندر بھی ایک چھوٹا سا دماغ موجود ہے۔ڈاکٹرآرمر نے دل کے اس نئے دریافت ہونے والے نظام کو نیوروکارڈیالوجی کا نام دیا ہے۔ان کے بقول انسانی جسم میں تقریباً چالیس ہزار اعصابی خلیے پائے جاتے ہیں۔یہ وہی خلیے ہیں جن سے دماغ بنتا ہے۔دل کے یہ خلیے دماغ کی مدد کے بغیر کام کر سکتے ہیں۔دل کا یہ چھوٹا سا دماغ پورے جسم سے معلومات لیتا ہے اور پھر موزوں فیصلے کرنے کے بعدجسم کے اعضا،یہاں تک کہ دماغ کو بھی جوابی ہدایات دیتا ہے۔ہمارا دماغ اور جسم کے بقیہ خلیے دل سے آنے والی ہدایات ومراسلات کا لمحہ بہ لمحہ تجزیہ کرتے رہتے ہیں اور پھر نتائج کو جذبات کے سگنلز میں دل کو دوبارہ بھیج دیا جاتا ہے۔چنانچہ ان رپورٹوں اور سگنلز سے ہمارا،زندگی سے متعلق ایک خاص قسم کا رویہ،تجربہ اورانداز ہماری شخصیت کا حصہ بنتا ہے۔نیوروکارڈیالوجی کی اس نئی دریافت پر ہمیں اس لیے حیرت نہیں ہو رہی کہ عقل ودل کے درمیان معاملہ بھی اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود انسان قدیم ہے۔ہم یہی سمجھتے آئے ہیں کہ ہماری تمام تر خواہشات کا مرکز ہمارادل ہوتا ہے۔ان خواہشات کی تکمیل میں عقل کا کردار بہت تھوڑا ہے۔وہ صرف اچھائی اور برائی میں تمیز بتا سکتی ہے،یاپھر رستہ سجھا سکتی ہے مگر دل اپنے مقصد کے حصول کے لیے بے چین وبے قرار رہتا ہے۔مقصد کا حصول بھی دل کی اسی بے چینی سے ممکن ہوتا ہے جو جذبات کی صورت میں عمل پر اکساتا ہے اور منزل کو قریب لاتا ہے۔اسی لیے حضرت علامہ اقبالؒ عقل ایسے نور سے گزر جانے کی بات کی تھی۔ان کے بقول یہ چراغ راہ تو ہے،منزل نہیں ہے۔عقل کو چراغِ راہ قرار دینا ہے خوبصورت استعارہ تو ہے ہی مگر یہ عقل کے ناقص ہونے کی طرف بھی ایک اشارہ ہے۔رستے کا چراغ جتنا بھی بڑا ہو وہ کچھ فاصلے تک اور اپنی طاقت کے مطابق روشنی کر سکتا ہے۔یہ روشنی جو اس نے کہیں سے مستعار لی ہوئی ہوتی ہے اس کی اپنی نہیں ہوتی اس لیے عقل کا طریقہ کار محض خیال پر منحصر ہوتا ہے یا منطق واستدلال پر۔پھر وہ انسانی حواس کی بھی محتاج ہوتی ہے اور حواس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی حقیقت کا صحیح ادراک کر سکیں۔مثال کے طور پر ہماری آنکھ، جو ہمارے مشاہدے کے لیے بنیادی شے ہے،بے شمار چیزوں سے دھوکہ کھا جاتی ہے مثلاًاسے پانی پر سیدھی پڑی ہوئی چھڑی بھی الٹی نظر آتی ہے۔پھر عقل ایک کمپیوٹر کی مانند ہے۔اس میں جو چیز فیڈ کی جاتی ہے،وہ اسے ہی ڈھونڈ نکالنے ہر قادر ہوتی ہے اور اگر اس کے سامنے کچھ ایسی باتیں اور چھپی ہوئی چیزیں رکھی جائیں جن سے کبھی اس کا واسطہ نہ پڑا ہو تو وہ ان کے علم سے انکار کر دیتی ہے اور بالفرض وہ چیزیں ثابت ہوجائیں تو عقل کے پاس حیران ہونے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔اقبالؒ عقل کے مقابلے میں خدا تعالیٰ سے دل بینا طلب کرتے ہیں کیونکہ دل بینا عقل کے مقابلے میں زیادہ کامل بھی ہے اوررہ نوردِشوق بھی ہے۔شوق کا دل سے تعلق محض واجبی نہیں ہے بلکہ بہت گہرا ہے کہ دل پہلو میں ڈھرکتا ہے اور شوق سینے میں مچلتا ہے۔عین ممکن ہے، یہ سینے میں مچلتا ہوا شوق،نیوروکارڈیالوجی کی نئی دریافت یعنی دل پر مرتسم ہونے اور وہاں سے روانہ ہونے والی وہی رپورٹیں اور سگنلز ہوں جن سے زندگی سے متعلق خاص قسم کا رویہ،تجربہ،اور تاثر ہماری شخصیت کا حصہ بنتا ہے۔سو ہماری سار ی محبتیں،نفرتیں،پسند،نا پسند اور دیگر جذبات و احساسات کا دل سے گہرا تعلق ضرور ثابت ہو جاتا ہے۔سائنس جو جو چیزیں آج ثابت کرتی جا رہی ہے۔قران میں اس کا ذکر ساڑھے چودہ سو سال پہلے سے موجود ہے۔ایک حدیث مبارکہ کے الفاظ نیوروکارڈیالوجی کے اس جدید نظریہ کی بعین ہی توثیق کر رہے ہیں۔نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں ”جسم میں گوشت کا ایک ٹکٹرا ہے،جب وہ صحیح ہوجائے توسارا جسم صحیح ہوجاتا ہے اور جب وہ خراب ہو جائے توسارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔خبردار سن لو!وہ دل ہے“۔اسی طر ح سورہ حج میں ارشاد ہوتا ہے۔”آنکھیں نہیں ہوجاتیں مگر دل بصیرت سے اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں“ اسی طرح سورہ انعام میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔”تو کیوں نہ ہواتو جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو گڑگڑائے ہوتے لیکن ان کے تو دل سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے کام ان کی نگاہ میں بھلے کر دکھائے“۔سائنس آج دل کے جس عقل وشعور اور اندھے پن کو ثابت کر رہی ہے،قران و حدیث یہ بات چودہ سو سال پہلے آچکی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کے ارادے اور اس کی تکمیل اور دل کی سختی اور نرمی میں، صرف دماغ اور فکر وتدبر کا ہی حصہ نہیں ہے بلکہ دل کا کردار بھی بنیادی نوعیت کا ہے۔بقول اقبالؒ
دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور د ل کا نور نہیں
گمنام
مارچ 6, 2020بیوٹِی فُلی رِٹّن
Ansar Arfat Khan
مارچ 6, 2020Wel articulated
shaukat awan
مارچ 6, 2020بہت خوبصورت کالم جس میں دل دماغ احساس جیسی حقیقتوں پر قلم اٹھایا گیا ہے۔ ان چیزوں کو سمجھنے میں یہ کالم بہت مددگار ثابت ہو گا۔ کیوں کہ سائنس اور آرٹ دونوں کی اہمیت کے نقطہ نظر سے اس کالم میں کچھ حقیقیتیں پیش کی گئی ہیں۔