کالم

آئینے : ڈاکٹر اسدمصطفیٰ

اس کائنات میں اگر کوئی سخی ہے تو وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذاتِ ہے۔باقی ساری دنیا کی سخاوتیں دراصل اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہےجو اس نے اپنی مخلوق میں تقسیم کی ہے اور اس مہر ومحبت کا حصہ ہے جو ہم اپنے دلوں میں اپنوں اور دوسروں کے لیے محسوس کرتے ہیں۔دنیا رب کی سخاوت سے بھری ہوئی ہے۔اس کی مہربانی،ازل سے جاری وساری ہے۔اس رحمت کی خاص بات یہ ہے کہ خالق ومالک کی طرح اس کی رحمت بھی لا محدود ہے۔دنیا کے خاتمے کے بعداللہ کی یہ رحمت اور عنایت لاکھوں کروڑوں گنا زیادہ ہو جائے گی۔لیکن اس سے صرف وہی مستفید ہو سکیں گے جو اس دنیا کے نیک اور پرہیز گار لوگ ہوں گے۔جو با اخلاق اور اہل ادب ہوں گے۔دوسروں کا بھلا چاہنے والے اوردوسروں کا فائدہ کرنے والے ہوں گے۔اپنے رب کو ڈر سے خوف سے اور محبت سے پکارنے والے ہوں گے۔جن کے دل خشیت الٰہی سے لرزاں ہوں گے ۔ جو خلوص کا پیکر ہوں گے ۔خلوص بڑی چیز ہے۔کیوں کہ اسی سے وہ فیض ملتا ہے،وہ نگاہ کرم پڑتی ہے،وہ توجہ حاصل ہوتی ہے کہ جو من کے میل کو اتار کر اجال دیتی ہے۔یہی محبت بھری نگاہ مزاج میں کومل سروں کی دھن ملا کر اس سنجوگ سے نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کے پیکر میں ڈھال دیتی ہے اور پھر سالک کا دل جب آئینہ ہو جاتا ہے تو وہ بے اختیار کہہ اٹھتا ہے۔
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب کبھی گردن جھکائی دیکھ لی
آئینوں میں بھی بڑا فرق ہوتا ہے۔دیوار پہ لگے ہوئے آئینے میں آدمی بس اپنا سراپا دیکھ سکتا ہے،اپنے چہرے مہرے کے خدوخال ملاحظہ کر سکتا ہے۔اس کے مقابلے میں وہ اپنے دل کے آئینے میں اپنی باطنی تصویر بھی دیکھ سکتا ہے،اپنے گنہ و ثواب اور اعمال پر نظر کر کے اپنی اصلاح کر سکتا ہے،اپنوں کی یا کسی اپنے کی محبت بھی محسوس کر سکتا ہے،مگر کسی فقیر کا آئینہ ءدل بڑی مختلف چیز ہوتا ہے۔وہ اتنا صاف وشفاف ہوتا ہے کہ فقیر اس میں ساری کائنات کا مشاہدہ کرتا ہے۔یہ مشاہدے کی قوت رب کی عطا ہے۔سو اللہ کی اسی عطا سے اس کا آ ئینہ اتنا شفاف ہو جاتا ہے ،لوگوں کو اس میں اپنی حقیقت نظر آنا شروع ہو جاتی ہے ۔صوفی شاعر میر درد نے اسی حقیقت کی ترجمانی کی تھی۔
ہر چند آئینہ ہوں پر اتنا ہوں نا قبول
منہ پھر لیں وہ جس کے مجھے روبرو کریں
آئینے ہونے کا وصف ہر آدمی کو نہیں ملتا ،نہ ہی عبادت اور ریاضت سے نصیب ہوتا ہے یہ تو خالصتاً رب کی عطا ہے۔اس کی مرضی ہے کسی کو عطا کرے یا نہ کرے۔اسے ہم رب کی رحمت کہہ سکتے ہیں۔جنت میں جانے والا معاملہ بھی صرف رب کی رحمت پر منحصر ہے۔ایک بار ایک صحابی رض نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ لوگ جنت میں کیسے جائیں گے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی رحمت سے جائیں گے۔صحابی رضی اللہ عنہ نے پھر پوچھا کہ یا رسول اللہ آپ کیسے جائیں گے تو اس پر آپ نے فرمایا میں بھی اللہ کی رحمت سے جنت میں جاؤں گا۔تو وہ جو خود رحمت العالمین ہیں وہ خود فرما رہے ہیں کہ میں بھی اللہ کی رحمت سے جنت میں جاؤں گا تو ہم آج کے گناہ گار انسان کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں جائیں گے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہر وقت اللہ کو پکارتے رہنا چاہیے اور اس کی رحمت کا خواست گار رہنا چاہے۔اوریہ سب کچھ پانے کے لیے اخلاص بہت ضروری ہے۔اللہ کے ہاں مخلصین کا بہت بڑا درجہ ہے۔قران حکیم میں فرمایا گیا ہے کہ انہیں قیامت کے دن کچھ خوف نہیں ہوگا اور وہ بڑے عزت واحترام کے ساتھ جنت میں داخل کئے جائیں گے۔مخلصین کی پہچان بھی اللہ تعالیٰ نے خود بتا دی ہے،اور وہ یہ کہ تنہائی میں اللہ کو یاد کرنے والے،اور اللہ کی یاد میں آگے بڑھنے والے،جو نرم دل بھی ہوتے ہیں اور نرم خو بھی اور اللہ کی یاد میں ان کی آنکھوں سے آنسو رواں رہتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (جس کی آنکھ سے اللہ کے ڈر سے،ایک آنسو نکلا اور اتنا چھوٹا جتنا مکھی کا سر اور وہ لڑھک کر اس کے گال تک آگیا تو اللہ نے اس پر دوزخ کی آگ حرام کر دی۔)جیسا کہ اس حدیث شریف سے بھی ظاہر ہو رہا ہے۔اخلاص اور خلوص میں بہت بڑی طاقت موجود ہے۔اللہ والے خلوص کے بندے ہوتے ہیں۔یہ خلوص آج کے انسانوں میں عنقا ہے۔ ہمارا معاشرہ خود غرضی اورنفسا نفسی کا شکار ہے۔اس وقت کرونا کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ایک کروڑ کے نزدیک افراد متاثر ہوچکے ہیں اور زندگی ہارنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔اس جراثیم کے پھیلنے کی وجوہات بظاہر جو بھی ہیں،ہم سب اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضی کا شکار ہیں۔اب وقت آگیا ہے ہم سب پر خلوص ہو جائیں نفسا نفسی ،چھینا جھپٹی اور حرص وہوس سے انسانیت کو کیا ملا ہے۔۔کرونا عذاب الٰہی ہے ۔ہمیں منت سماجت سے اور عاجزی ،اپنی لاچاری کے اظہار سے اپنے رب کو منانا ہوگا۔اپنے گناہوں پر مسلسل استغفار کرنا ہو گا۔اس دنیا میں اللہ کے نیک بزرگ بھی موجود ہیں ان سے دعاؤں کی درخواست کرنی ہے کہ اللہ اپنے پیاروں کی درخواست رد نہیں کرتا۔یقینا اللہ کی ناراضی دور کر نے کے لیے ہم سب کو بہت زیادہ سنجیدہ ہو کر اس کے حضور فریاد کرنا ہوگی۔۔۔بقول اکبر الہ آبادی
آہ جو دل سے نکالی جائے گی
کیا سمجھتے ہو کہ خالی جائے گی

younus khayyal

About Author

3 Comments

  1. گمنام

    جولائی 3, 2020

    Heavy sir g

  2. علی

    جولائی 3, 2020

    Nice

  3. Farheen

    جولائی 3, 2020

    Very nice

گمنام کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی