ڈاکٹراسد مصطفیٰ
عمران خان نے اس مرتبہ بھی نیلا سوٹ زیب تن کیا تھا۔نیلے رنگ کی روشنیاں،اس کی شخصیت کی قوسِ قزح سے چھن چھن کر جنرل اسمبلی ہال میں بیٹھے مہمانوں کے ذہنوں کو منور کر رہی تھیں۔اس کے لب ولہجے میں بلا کا اعتماد تھا۔وہ صرف ان کو ہی مسحور نہیں کررہا تھا۔دنیا بھر کے ٹی چینلز پر بیٹھے ہوئے لاکھوں افرادبھی اسے اپنا دل دے بیٹھے تھے۔اس نے گفتگو کے آغاز میں اپنے رب سے جو مدد مانگی تھی، وہ طاقت ورلفظوں کی صورت میں سماعتوں سے ٹکراتے ہوئے سرد دلوں میں حرارت پیدا کررہی تھی تو پتھر دل موم ہوتے جا رہے تھے۔لیکن جنھیں قران نے کفار قرار دیا ہے،اس پکار پر ان کی مثال بھی ان جانوروں کی سی تھی جو سوائے پکار اورآوازکے کچھ نہیں سن رہے تھے۔ وہ پھر بھی ان سے مخاطِب تھا کہ اس کے مخاطَب وہی تھے۔شاید وہ سن لیں اور سمجھنے کی کوشش کریں۔شاید ا س کی بات،ان کے ضمیرکی عدالت تک پہنچ جائے۔کلمتہ الحق بلند کرتی اس آواز سے ان کے قلب وذہن میں ارتعاشات توپھیل رہے تھے مگر وہ لوگ بہرے،گونگے اور اندھے تھے، سو انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا مگر وہ کہے جا رہا تھا۔
وہ کہہ رہا تھا”پیغمبر محمدﷺ مسلمانوں کے دل میں رہتے ہیں۔ حضوراکرمﷺ کی توہین ہوتی ہے تو مسلمانوں کے دل میں درد ہوتا ہے اور دل کا درد جسم کے درد سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔حضوراکرمﷺ نے بتایاہے، انتہاپسند اسلام جیسی کوئی چیز نہیں ہے، کوئی شخص کیسے فیصلہ کرسکتا ہے کہ انتہاپسند اور معتدل مسلمان کون ہے؟اسلاموفوبیا مسلم ممالک اورمسلمانوں میں تکلیف کا سبب ہے۔ مسلمانوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے اور اس سے انتہاپسندی بڑھتی ہے، اقوام عالم کو اب اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلم سربراہوں نے بھی اسلاموفوبیا ختم کرنے پر بات نہیں کی۔مغرب میں مخصوص طبقات جان بوجھ کر اسلام کے خلاف پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔مغرب میں اسلام کے بارے میں عجیب چیزیں سنی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔وہاں سوچا جاتا ہے کہ اسلام آزادی اظہار کی اجازت نہیں دیتا،وہاں کہا گیا کہ اسلام خواتین کی آزادی کے خلاف ہے،وہاں ایک تاثر پایا جاتا ہے کہ اسلام اقلیتوں کے خلاف ہے۔حضور اکرم ﷺ کی زندگی مسلمانوں کے لیے مثال ہے۔ریاست مدینہ دنیا کی پہلی فلاحی ریاست تھی، اسلام میں کہا گیا کہ تمام افراد برابر ہیں۔ اسلام بتاتا ہے کہ ہر شخص قانون کی نظر میں برابر ہے،چاہے اس کا مذہب کوئی بھی ہو۔جب مسلم ریاست اقلیتوں کیخلاف جاتی ہے تو وہ اسلام کے خلاف جاتی ہے۔“
وہ کہہ رہا تھا ”میں یہاں دراصل اہل کشمیر کا مقدمہ پیش کرنے آیا ہوں۔دنیا بھر کے مسلمان دیکھ رہے ہیں کہ کشمیریوں پر صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے ظلم ہو رہا ہے،اگر صرف 8 لاکھ یہودی بند ہوتے تو دنیا کے یہودیوں کا ردعمل کیا ہوتا،کیا مسلمان باقی مذاہب کے افراد سے کمتر ہیں؟اگر کشمیر میں خون بہے گا تو مسلمان شدت پسندی کی طرف جاسکتے ہیں۔میں کشمیر میں ہوتا اور 55 دن گھر میں بند کر دیا جاتا، میری خواتین سے زیادتی ہوتی تو کیا میں چپ بیٹھتا، کیا میں ذلت کی زندگی گزارتا،میں بھی بندوق اٹھا لیتا“
اس کی باتیں دلوں کو جھنجوڑنے والی تھیں۔اس سچ سے نہ ہندو انکار کر سکتا ہے،نہ یہودی اور نہ عیسائی۔کیونکہ سچ سچ ہو تا ہے۔سچ کڑوا بھی ہوتا ہے۔اس لیے انڈیا کو بہت کڑوا محسوس ہوا ہے اور بھی بہت سے لوگوں کو کڑوا محسوس ہوا ہوگا۔پاکستان میں بھی یہ تقریربعض لوگوں کے گلے میں اٹکی ہوئی ہے۔شایدوہ سب اندھے ہیں یا انہوں نے تعصب کی عینک چڑھا رکھی ہے لیکن عمران خان اہل دل کے دل میں ایک بار پھر گھر کر گیا ہے۔اہل دل چاہے، ترکی میں ہوں یا ایران،عراق،شام اور مصر میں،کسی اسلامی ملک میں ہوں یا غیر اسلامی، ان سب نے اس تقریر کو اپنے دل کی آوازکہا ہے۔وہ اس جیسی اور تقریریں بھی سننا چاہتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں اسلام کا مذاق اڑانا بند کیا جائے اور جہاں جہاں مسلمانوں کے حقوق غصب کئے جا رہے ہیں۔طاقتور حکومتیں یہ استحصال بند کردیں۔صحیح مسلم کی حدیث شریف ہے کہ”اپنے آپ کو کسی صورت میں کمزور ظاہر نہ کرو“عمران خان نے ماضی کی حکومتوں کے برعکس امریکہ سے برابری کی سطح پر تعلقات کی،بات کی ہے۔سو ان کی بات کواہمیت دیتے ہوئے صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر ثالثی کی پیشکش کی ہے اور بھارت پر زور بھی دیا ہے کہ وہ کشمیر میں کرفیو ختم کردے۔یہ یقینا عمران خان کی تقریر کااثر ہے کہ کشمیر میں قابض انتظامیہ نے ۲۲اضلاع سے دن بھر کا کرفیو ختم کر دیا ہے اور آرٹیکل۰۷۳۔ اے کے کیس کی سماعت کیے بھارتی سپریم کورٹ کا ۵ رکنی بنچ تشکیل دے دیا ہے۔
عمران خان کا آر ایس ایس اور مودی کے جرائم سے پردہ ہٹانا،اعلائے کلمتہ الحق ہے، جو وہ دنیا جہان کے طاقتور حکمرانوں کے سامنے بلند کر رہا تھا۔ وہ اپنے خطاب میں یقیناً رحمت الہی کو اپنے قریب پا رہا تھا۔عمران خان کی اس تقریر نے بالکل ایک نئے عمران خان کو سامنے لا کھڑا کیاہے۔ہم پہلے جس عمران کو جانتے تھے اس کے دل میں پاکستان کا درد نمایاں تھا۔اب اس کے دل میں امت کا دردبھی نمایاں ہے۔امت کا درد پہلے اس کے دل میں تھا مگر اب جب سے اس کی آواز بھرائی ہے،یہ درداس کے روح وبدن میں جاری وساری ہو گیا ہے۔یہ درد ہمیں طیب اردگان کی آنکھوں سے چھلکتا ہوابھی دکھائی دیتا ہے۔اس درد نے ہمیں بھی رلا دیا ہے اوردنیا جہان کے لوگ یہی سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اسلام ایک امن پسند اور محبتیں تقسیم کرنے والا دین ہے۔نائن الیون کے بعد جس طرح دنیا اسلام سے دور ہوئی تھی اور مغرب،اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کی جس انتہا تک جا پہنچا تھا،وہ یقینا اپنے ان نظریات پر نظر ثانی کرے گا اور جارج برنا ڈ شا کی یہ پیش کوئی سچ ثابت ہوگی کہ”میں نے محمد ﷺ کے مذہب کو اس کی توانائی کی بنا ء پر ہمیشہ احترام کی نگاہوں سے دیکھا ہے۔ جس طرح آج کا یورپ اس مذہب کو قبول کر نے پر آمادہ ہو رہا ہے،اسی طرح کل کا یورپ بھی اسے قبول کر لے گا۔“ہم آخر میں پروفیسر محمد اشفاق چغتائی ؒ کو اپنا ہمنوا بنا لیتے ہیں۔ جنھوں نے کہا تھا۔
اے ظلم ترے حد سے گزر جانے کے دن ہیں
محسوس یہ ہوتا ہے بہار آنے کے دن ہیں
پھر چشم و نظر ہوں گے مے عشق سے لبریز
چل محفل ساقی میں یہ مے خانے دن ہیں
اس پار کی بستی سے مجھے آئیں صدائیں
کشمیر تمہارا ہے ادھر جانے کے دن ہیں
اے ملت اسلام ترے عضوِ بریدہ
ملنے کو ہیں آپس میں کہ مل جانے کے دن ہیں