یوسف خالد
یہ سب احتجاج بے معنی ہیں جب تک قومی سطح پر نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم کو تبدیل کرنے کے لیے احتجاج نہیں کیا جاتا – ریاست کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ جب تک تعلم و تربیت کے ذریعے بہتر انسان تیار نہیں کیے جائیں گے ہمارا رونا دھونا ختم نہیں ہو گا – اگربا مقصد نصاب تعلیم اور بہترین نظام تعلیم کو ترجیح دی جائے اور بجٹ میں خاطر خواہ رقم مختص کر دی جائے تو 18 سال کے قلیل عرصہ میں با صلاحیت افراد کی ایک پوری کھیپ وطن کی خدمت کے لیے سامنے آسکتی ہے – ضرورت اس امر کی ہے کہ محب وطن ،با شعور اور تعلیمی امور کے ماہرین کو نصاب کی تیاری کا کام سونپا جائے – اور پھر عرق ریزی سے اس کا تجزیہ کیا جائے – اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ اس نصاب اور نظام کے تحت تعلم و تربیت حاصل کرنے والے افراد کی سوچ، کردار، فعالیت۔ ذمہ دارانہ رویہ اور دیگر ریاستی اور معاشرتی ضرورتوں پر پورا اترنے کے کتنے فیصد امکانات ہیں –
یہ کام نا ممکن نہیں ہے بس عوام الناس اور ریاست کا ارادہ مضبوط ہونا چاہیے – عوامی سطح پر ہمیں چاہیے کہ ہم سیاست دانوں کو ان ضرورتوں کا احساس دلائیں –
دنیا بھر میں تعلیم کو اولین ترجیح دی جاتی ہے – ہم نے تعلیم سے صرف نظر کر کے ایسے افراد کے ہاتھ میں ریاستی امور دے دیے ہیں – جن کے سوچ ان کے پیٹ سے آگے نہیں جاتی – ان کی اہلیت اور نیت دونوں سوالیہ نشان ہیں – ہم کب تک اس گلے سڑے نظام کے ساتھ امور مملک چلائیں گے – کم از کم ایسا کوئی انتظام کر دیا جائے کہ 18 سال کے بعد ہی سہی کچھ اچھے لوگ تو میسر آ جائیں –
آج ہماری پوری قوم فکری مغالطوں اور ذہنی انتشار کا شکار ہے – ایسی قومیں پرپیگنڈے کے لیے بہترین رزق ہوتی ہیں – یہی سبب ہے کہ ہمیں ذرائع ابلاغ نے پاگل بنا دیا ہے – کہیں ہم خبروں کی زہر ناکی کا شکار ہیں تو کہیں نام نہاد سیاست دانوں اور مذہبی اداکاروں کے اشاروں پہ ناچ رہے ہیں – عام افراد کو وہ سوجھ بوجھ عطا ہی نہیں کی گئی کہ وہ اچھے برے کی پہچان کر سکیں – بہت سے انسانی اقدار کا حلیہ اس طور بگاڑ دیا گیا ہے کہ اب سچ اورجھوٹ دیانت اور بد دیانتی عہد وپیماں اور عہد شکنی کا فرق مٹ گیا ہے – رویوں میں غیر ذمہ داری اور سہل پسندی عروج پر ہے – ذہنی امراض میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے – لوگ ایک دوسرے کی بات سننے کو تیار نہیں بس ایک ٹکراؤ ہے جس کا مشاہدہ ہر گلی کوچے میں کیا جا سکتا ہے – تکلیف دہ بات یہ ہے کہ آبادی میں جو اضافہ ہو رہا ہے وہ معاشرے کو ان گنت مسائل کا شکار کر رہا ہے – اور ایک پوری نسل بغیر مناسب تعلیم اور مناسب نشو ونما کے معاشرے میں تسلسل سے شامل ہوتی جارہی ہے – ہر شہر گندگی کا ڈھیر بن چکا ہے لوٹ کھسوٹ ،قتل و غارت اور دھوکہ فریب عام ہوتا جا رہا ہے – کیا ہم نے کبھی سوچنے کی زحمت کی ہے کہ یہ سب کیا ہے اور کیوں ہے؟
مہنگائی اور لاقانونیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور اگر اس کے ساتھ جہالت اور غربت بھی ہو تومستقبل کا نقشہ کھینچنا مشکل نہیں – آبادی بڑھنے سے شہروں میں جو مسائل پیدا ہو چکے ہیں انہیں حل کرنے کے لیے قارون کا خزانہ چاہیے – اگر کوئی ادارہ صفائی کی کوشش کرتا بھی ہے تو غیر تربیت یافتہ 22 کروڑ عوام گند گی ڈالنے کی عادت سے دستبردار نہیں ہوتے — کیا ہر شخص کے ساتھ ایک پولیس کا اہلکار لگایا جائے جو اسے پکڑے روکے اور گندگی ڈالنے سے منع کرے — ایسا ممکن نہیں ہمیں ہر شخص کے اندر ایک محتسب پیدا کرنا پڑے گا – جو اسے غیر مناسب کاموں سے روکے — ترقی یافتہ ممالک میں لوگ اپنی اخلاقی و معاشرتی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں اور جو نہیں کرتے انہیں قانوں ایسا کرنے پہ مجبور کر دیتا ہے – ہمیں بھی ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی ماڈل کو سامنے رکھنا پڑے گا –
ہماری عارض مرہم پٹیاں ہمارے زخموں کا علاج نہیں ہیں – ہمیں پوری دانائی سے اپنے مسائل کو نشان زد کرنا ہو گا – اسباب کا کھوج لگانا ہو گا اصلاح احوال کے لیے پوری قوت سے اقدامات اٹھانے ہوں گے — ہمیں اپنے قومی مسائل کو قومی ایجنڈا بنانا ہو گا – ہر احتجاج کو رد کر دیں قومی اصلاح احوال کے لیے آواز بلند کریں – یہی ہمارے مستقبل کو محفوظ کرنے کا طریقہ ہے –
یوسف خالد