کالم

ناقص نظامِ تعلیم اور غیر متوازن نصابِ تعلیم


یوسف خالد
ایک انتہائی مختصر سا بنیادی خاکہ
ہمارا معاشرہ جس تہذیبی و تمدنی انحطاط کا شکار ہے اور جس طور تقسیم در تقسیم کے مراحل سے گزر کر اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہے – اس بارے کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے -بے سمتی اور ہیجان کی زد میں آئے ہوئے افراد ایک عجیب ذہنی کرب میں مبتلا ہیں -ہر شخص غیر مطمئن اور ایک بے یقینی کی حالت میں گرفتار ہے —
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟یوں تو بہت سے اسباب ہیں لیکن بنیادی سبب تعلیمی سہولتوں کا فقدان اور نامناسب نظام تعلیم ہے – حکمران طبقہ کے لیے تعلیم کسی طور کوئی ترجیحی حیثیت نہیں رکھتی- تعلیم سے بے اعتنائی مستقبل کو مخدوش بنا رہی ہے —
یہ چند سطریں احباب کی توجہ کے لیے تحریر کی ہیں – انہیں تجاویز بھی کہا جا سکتا ہے -ایک سوچ کا انداز بھی – یہ محض تحریک پیدا کرنے کے لیے ہیں -آگے بڑھ کر اس حوالے سے اپنی سوچ کا کام میں لایئے -ہو سکتا ہے کسی سوچ کو پزیرائی مل جائے —ضرورت اس امر کی ہے کہ–
نصابِ تعلیم کو ہر قسم کے تعصب سے پاک کیا جائے اور ابتدائی تعلیم کے لیے قومی زبان پر مکمل دسترس کو ابتدائی 5 سالوں میں یقینی بنایا جائے –
بعد ازاں عربی اور انگریزی کی طرف خصوصی توجہ دی جائے -تا کہ جدید علوم تک طلبا کی رسائی ممکن ہو سکے اور ساتھ ہی عربی پر کامل دسترس کے ذریعے بعض نام نہاد مذہبی گروہوں کی اجارہ داری ختم کی جائے اور طلبا کو از خود دینی تعلیمات سے رجوع کرنے اور پوری آزادی سے دین کو سمجھنے کی طرف راغب کیا جائے– اسی صورت میں ہم اپنی نئی نسل کو آزادی سے آگے بڑھنے کی راہ دکھا سکتے ہیں –
تعلیمی نظام میں سماجی تربیت کے لیے ماہرین نفسیات سے مدد لے کر ایسا نصاب مرتب کیا جائے جو معاشرے کی مجموعی صورت حال کے خد و خال واضح کر سکے- اور اس کے ذریعے ایسے افراد تیار کیے جا سکیں جو معاشرے میں اعلیٰ انسانی اقدار کا نمونہ قرار دیے جا سکیں- اور معاشرے میں باہمی یگانگت اور برداشت کو پروان چڑھانے کا باعث بنیں-
نصاب میں غیر ضروری معلومات اور مواد کو شامل کرنے کی بجائے سوچ اور فکر کو تحریک دینے والے علوم شامل کیے جائیں تا کہ تخلیقی ،اختراعی اور تجزیاتی مزاج جڑ پکڑے – منطقی اور استدلالی طرزِ اظہار کو اختیار کرنے کی تربیت دی جائے –اور جذباتیت سے گریز کا چلن سکھایا جائے – اسی صورت ایک متوازن ذہن پروان چڑھ سکتا ہے —
ہمارا معاشرہ جس فکری انتشار جن مغالطوں اور مبالغوں کی زد میں ہے اس کی واحد وجہ ناقص نظامِ تعلیم ہے -جو طلبا میں سوچنے سمجھنے اور اچھے برے میں تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں کر سکا – ایک ایسا ذہن جس کا اپنا فکری نظام پوری طرح فعال نہ ہو بہت جلد متاثر ہوتا ہے- مفاد پرست افراد فرد کی اسی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اسے اپنے مکروہ مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں- ہمارے وہ تمام نوجوان جو جرائم پیشہ افراد اور نام نہاد مذہبی اور لسانی جماعتوں کے آلہ کار بنتے ہیں – اس کا سبب بھی یہی فکری اور ذہنی غیر فعالیت ہے
آپ کسی بھی تعلیمی ادارے میں چلے جائیں اور طلبا سے زندگی کے کسی بھی موضوع پہ بات کریں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ہم نے تعلیم کے نام پر جو نظام وضع کیا ہے اس کے نتائج کتنے حوصلہ شکن ہیں – طلبا ان گنت فکری مسائل کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہیں – اگر رویوں کی بات کی جائے تو عدم برداشت ، غیر منطقی گفتگو اور جذباتیت اپنے عروج پر دیکھنے کو ملے گی سوائے امتحانی نمبروں کے ہمارے پاس طلبا کی صلاحیتوں اور تربیت کو ماپنے کا کوئی پیمانہ نہیں – اس حوالے سے جب ہم انٹری ٹیسٹ کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ طلبا نے جو باقائدہ امتحان پاس کر کے نمبر حاصل کیے تھے وہ قابلِ اعتبار نہیں ہیں اور قابلیت جانچنے کے لیے ایک اور امتحان ضروری ہے -کبھی آپ طلبا اور ان کے والدین سے انٹری ٹیسٹ کی افادیت پہ بات کریں تو آپ کو پتا چل جائے گا کہ یہ ایک بھیانک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں – افسوسناک بات یہ ہے ہم سب نے بحیثیت قوم کبھی بھی ان بے اعتدالیوں اور ناقص نظام پہ آواز نہیں اٹھائی – کسی بھی مریض کا جب علاج کیا جاتا ہے تو مقصود اسے صحت مند بنانا ہوتا ہے اسی طرح تعلیم کا مقصود یہ ہے کہ طلبا کو با صلاحیت اور بہتر انسان بنایا جائے – اور اگر اس حوالے سے نتائج سامنے نہیں آ رہے تو علاج تبدیل کیا جائے اور زیادہ توجہ سے دوا تجویز کی جائے –
موضوع بہت وسیع ہے بہت سے پہلو توجہ طلب ہیں طوالت کے ڈر سے اختصار سے کام لیا ہے اور مذکورہ بالا چند سطریں محض سوچ کو تحریک دینے کے لیے پیش کی گئی ہیں– ہمیں حکومتِ وقت کو احساس دلانا ہو گا کہ وہ نظامِ تعلیم کی اصلاح کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرے -اور پورے نظام کا سیاسی اور دیگر مصلحتوں سے الگ کر کے خالصتا” قومی ضرورتوں اور مستقبل کے تقاضوں کے مطابق ترتیب دینے کے لیے از سرِ نو جائزہ لے -اور ماہرین کی مدد سے قابلِ عمل پروگرام وضح کرے –
یوسف خالد

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی