کالم

بخیہ اُدھیڑ ۔۔۔ کالم : سعیداشعرؔ

سعید اشعر
سعیداشعرؔ
تجاہل
ساجد حمید کو فوت ہوئے آج ہفتہ سے اوپر ہو چکا ہے۔ اس کی وفات کی خبر چند لمحوں میں ہزاروں میل کی دوری پر مجھ تک پہنچی تھی۔ اسی طرح سینکڑوں دوسرے دوستوں کو بھی اطلاع ملی۔ یہ سوشل میڈیا کا کرشمہ تھا۔
آج سے کچھ عرصہ پہلے گاؤں یا محلے میں جب کوئی فوت ہو جاتا تو پڑوس میں جن جن کو پتہ چلتا وہ میت والے گھر کا رخ کرتے۔ لواحقین کی ڈھارس بندھواتے۔ انتظام اپنے ہاتھ میں لے کر فوری طور پر:
جنازے کا وقت طے کرتے۔
کچھ لوگوں کو قبر کی کھدائی پر متعین کرتے۔
ارد گرد کی تمام مسجدوں میں اعلان کرواتے۔
جہاں جہاں ممکن ہوتا ٹیلی فون کرتے۔
مختلف افراد کو رقعے دے کر ان علاقوں میں بھیجتے جہاں اطلاع پہنچانے کا کوئی اور بندوبست نہ ہوتا۔
ایندھن، چارپائیاں، بسترے، دودھ اور پانی پہنچاتے۔
وغیرہ وغیرہ وغیرہ
نوے کی دہائی تھی۔ ہمارے محلے میں ایک شخص فوت ہو گیا۔ سردیوں کا موسم تھا۔ رات کے دس بجے کچھ بزرگوں نے میرے ذمے لگایا کہ کھلابٹ ٹاؤن شب میں شاہ صاحب کو اطلاع دینی ہے۔ ہری پور سے یہ فاصلہ کم از کم پانچ سات میل تو لازمی ہوگا۔ میں نے ایک لڑکا ساتھ لیا۔ جانے کے لیے اتفاق سے ایک ٹانگہ مل گیا۔ مگر واپسی پر بڑا مسئلہ ہوا۔ پیدل بھی نہیں آ سکتے تھے۔ سنسان راستہ تھا۔ ان دنوں اکثر اس راستے پر وارداتیں ہوتی تھیں۔ چوک میں ایک ہوٹل تھا ہم اس کے باہر کھڑے ہو گئے۔ کچھ دیر بعد کہیں سے ایک ٹانکہ آگیا۔ ہم اس پر سوار ہو گئے۔ ٹانگہ چلنے لگا تو ایک اور شخص بھی اس پر بیٹھ گیا۔ اتنے میں کسی نے آواز دی۔
"خیال کرنا شاہ صاحب کے مہمان ہیں”
وہ ہری پور آنے سے پہلے ہی اتر گیا۔ ہم ہری پور پہنچے تو ٹانگے والے نے یہ کہہ کر کرایہ لینے سے ا نکار کر دیا کہ
"آپ کا کرایہ ہو گیا ہے”
"ہمارا کرایہ کس نے دیا”
"وہ جو دوسرا شخص ساتھ بیٹھا تھا”
بعد میں پتہ چلا کہ ہمارے ساتھ جس نے سفر کیا تھا وہ اس علاقے کا سب سے بڑا وارداتی تھا۔ یہ قصہ یہاں لکھنے کا صرف اتنا مقصد ہے کہ اس زمانے میں ان لوگوں کے ہاں بھی مروت اور احساس موجود تھے جن کا پیشہ ہی جرم تھا۔
اب یہ اقدار ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ باقی تو چھوڑیں کسی کے جنازے یا بیماری کے بارے میں ہم سوشل میڈیا پر پوسٹ لگا کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں کوئی گلہ کرے تو ہمارے پاس ریڈی میڈ عذر موجود ہے
"اس وقت ہمیں اتنا ہوش ہی نہیں تھا”
حالانکہ ہمیں اس بات کا ہوش اور فرصت ہوتے ہیں کہ ہم ہر دو منٹ بعد چیک کرتے ہیں کہ میری پوسٹ پر کتنے نئے کمنٹ یا لائک آئے ہیں۔ پھر بھی ہم مان لیتے ہیں کہ فوت ہونے والے سے کسی کی اتنی جذباتی وابستگی ہوگی کہ وہ عارضی طور پر ہوش کھو دے۔ لیکن ایسی صورتِ حال پر اہلِ دانش کیا فرمائیں گے۔
پچھلے مہینے ایک جگہ کچھ دوستوں نے میرے اعزاز میں ایک شام کا اہتمام کیا۔ بینر پر مہمانِ خصوصی کی جگہ ڈاکٹر سفیان صفی کا نام نمایاں کر کے لکھا گیا۔ تقریب کے بعد اگلے دن میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا۔
"حضور آپ کیوں نہیں تشریف لائے تھے”
"یار میں کیسے آتا۔ مجھے کسی نے دعوت ہی نہیں دی”
میں سمجھ گیا۔ پروگرام کے منتظمین نے سوشل میڈیا پر بینر لگا کر اپنے فرائض سے سبکدوشی حاصل کر لی تھی۔ میں ذاتی طور پر آگاہ ہوں کہ ڈاکٹر صاحب سوشل میڈیا پر ہفتوں بعد ایک آدھ منٹ کے لیے آتے ہیں۔ ان کی اس قدر مصروفیات ہیں کہ وہ اس کے متحمل ہی نہیں ہو سکتے۔
یہی معاملہ حفیظ اللہ بادل کے ساتھ بھی پیش آیا۔ ساجد حمید کو فوت ہوئے تین دن گزر گئے۔ تب اسے خبر ہوئی۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا ان بے شمار لوگوں کو ابھی تک خبر نہیں پہنچی ہوگی جن کا نیٹ آف ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اب تو پڑوس میں بھی کوئی فوت ہو جائے تو خبر نہیں ہوتی۔ مسجد میں چاہے اب جتنے بھی اعلان کیے جائیں تو بند مکانوں اور شور شرابے میں پتہ ہی نہیں چلتا۔
عجیب نفسانفسی اور بے حسی کا عالم ہے۔ کسی کے بارے میں کوئی اچھی یا بری خبر اگر کسی کو معلوم بھی ہو تو وہ اسے دوسرے کو بتانے سے گریز کرتا ہے۔ حالانکہ بظاہر اس کی کوئی وجہ نظر نہیں ہوتی۔ بے شمار بار ایسا ہوا کہ عبدالصبور قریشی نے مجھے میرے کسی قریبی عزیز کے بارے میں خبر دیتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا کہ مجھ تک یہ اطلاع کیوں نہیں پہنچی۔ میں آگے سے کہتا۔
"ظاہر ہے جب تک مجھے کوئی بتائے گا نہیں مجھے کیسے خبر ہو سکتی ہے”
کیا میں یہ سمجھنے میں حق بجانب ہو سکتا ہوں کہ کچھ لوگ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ وہ حسد جیسی بیماری کی آخری سٹیج پر ہیں یا کچھ لوگ نامعلوم شکست پائیوں کا انتقام دوسروں سے اس طرح لے رہے ہوتے ہیں۔ وہ شاید یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بہت ساری آنکھیں ان کو بہت دور سے اپنی اپنی دوربین سے دیکھ رہی ہوتی ہیں۔
ہم یہ بات کیوں بھول رہے ہوتے ہیں اس تمام صورتِ حال کا سب سے بڑا شکار ہم خود اور ہماری آنے والی نسلیں ہیں۔ ہم ایک ایسی بنیاد کھودنے میں اپنی جان ہلکان کر رہے جس کے اوپر ہمارا گھر ہے۔
آخر میں دو اشعار دیکھیے
کئی طرح کے تماشے یہاں پہ ہوتے ہیں
یہاں پہ اب ہیں کئی روپ دھارنے والے
فصیل ذات پہ روشن چراغ کرتے رہے
دیار شب کی فضائیں سنوارنے والے

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی