غزل

جا کر کسی خلیج میں حائل نہیں ہوئی
یہ ریت تھی عجیب جو ساحل نہیں ہوئی

سارے جواز تیرے بہت دلنشین ہیں
پر میں کسی بھی بات کی قائل نہیں ہوئی

اس بار فصل کو تھے مسائل زمیں سے بھی
بے وقت بارشوں سے ہی زائل نہیں ہوئی

ہر ایک جملہ اسکا بہت کاٹ دار تھا
لیکن میں اسکی باتوں سے گھائل نہیں ہوئی

مدت سے کھینچتی تھی وہ اپنی طرف مجھے
زنجیر پھر بھی پاؤں کی پائل نہیں ہوئی

سب کو ہرا کے ہار گئی اپنے آپ سے
کس نے کہا کہ خود کے مقابل نہیں ہوئی

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں