میں دیکھ اپنے آپ کو ہی لوٹتا رہا
پھر کامیابی کے نشے میں جھومتا رہا
ایسی بہار آئی ہے زخموں کے درمیاں
ہر درد سے تُو پھوٹا ہے پھر پھوٹتا رہا
اب کے خزانی رُت میں حسِ شامہ بھی گئی
کاغذ کے ایک پھول کو مَیں سونگھتا رہا
اب ڈوب جاؤں مَیں یہاں پر یا ابھر سکوں
لو اک بھنور میں آج بھی ہوں گھومتا رہا
رب کی عبادتوں کا کہاں وقت ہی ملا
شیشے میں قید عکس کو میں پوجتا رہا
مجھ سے نکال کر مجھے ہی لے گیا ہے وہ
پِنجر میں ہاتھ ڈال کے مَیں ڈھونڈتا رہا
فیصل خمارِ رزق میں اوندھا پڑا ہوا
بھر کے شکم کی دوزخوں کو اونگھتا رہا