خورشید ربانی
پوچھوہو میرﺍ حال کیاغم کےسوا ہے اور کچھ
بزم جنوں اُلٹ گئی اب تو بپا ہے اور کچھ
مجھ پہ کھلا ہے ساراشہر،ایک وہ در نہیں کھلا
جس پہ وہ در نہیں کھلا، اس پہ کھلا ہے اور کچھ
موجِ ہوا کو دیکھ کر دل تو مچل مچل گیا
مجھ کو ملالِ بے پری ہونے لگا ہے اور کچھ
گاہ میں آئینہ ہی تھا اب توغبارِ عکس ہوں
میں تو غبارِ عکس ہوں ،چہرہ نما ہے اور کچھ
میں نے کواڑ کھول کر دھوپ کو راستہ دیا
دھوپ کو راستہ ملا ، مجھ کوملا ہے اور کچھ
کارِ وفا و مہر میں نفع بھی اب خسارا ہے
شہرِ تعلقات کی آب و ہوا ہے اور کچھ
راتوں کوجاگ جاگ کردیکھاتھامیں نے خواب اور
دیکھاتھامیں نے خواب اورآنکھوں پہ وا ہے اور کچھ